زندگی کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں پاؤں
جسم کی تہہ کھول کر بستر بنا لیتا ہوں میں
مدھیہ پردیش اردو اکادمی سنسکرتی پر یشد محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام بزمِ سخن کے تحت سیمینار اور کل ہند مشاعرہ کا انعقاد 26 جون، 2023 کو شام 5:30 بجے مدھیہ بھارت ساہتیہ سمیتی، رویندناتھ ٹیگور مارگ اندور میں کیا گیا۔
پروگرام کی شروعات میں مدھیہ پردیش اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ آج کا پروگرام دو اجلاس پر مبنی ہے. پہلے اجلاس میں اردو ادب میں قومی شعور اور اردو ادب میں سماجی ہم آہنگی موضوعات پر منعقد سیمینار میں مقررین اپنی تقریر پیش کریں گے اور دوسرے اجلاس میں کل ہند مشاعرہ منعقد ہے جس میں ملک اور صوبے کے مشہور شعرا اپنا کلام پیش کریں گے۔
انھوں نے سیمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب ہم ادب میں قومی شعور کی بات کرتے ہیں تو ہمیں آج کی تاریخ یعنی 26 جون کی بات بھی کرنی چاہیے ۔ 26 جون 1975۔۔۔یہ تاریخ ہمیں ملک میں ایمرجنسی کے سیاہ دور کی یاد دلاتی ہے ۔ ہم آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں ایسے میں ہمیں اس دور میں تخلیق کیے گئے ایسے ادب کو بھی منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے جس میں اس دوران ہونے والے جرائم اور مظالم کی تفصیلات ہوں اور جنہیں پڑھ کر نوجوان نسل کو جمہوریت کے اصل معنی اور اس کی اہمیت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
اس سلسلے میں بہت سی کتابیں موجود بھی ہیں جنہیں نئی نسل کو پڑھنا چاہیے ۔
سیمینار کی صدارت کررہے معروف ادیب اور شاعر شعیب نظام نے کہا کہ ادب کیونکہ سماج کا آئینہ ہوتا ہے اس کی ترجمانی کرتا ہے۔کہیں نا کہیں کہیں سماج میں جو چیزیں ہم دیکھتے ہیں انسانیت کے ناطے ان چیزوں کو بیان کرتے ہیں تو انسانی جذبات کا ہی تو بیان کرتے ہیں۔ اردو ادب اپنے ابتدائی تشکیلی دور سے ہی سماجی ہم آہنگی اور تہذیبی جذبات اور افکار سے معمور ہے۔
اردو شاعری کی بات کی جائے تو امیر خسرو، نظیر اکبر آبادی اور میر کی شاعری جگہ جگہ سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کا ذکر ملتا ہے وہیں اردو فکشن کی بات کی جائے تو منٹو اور نیر مسعود کی کہانیوں، قاضی عبدالستار کے ناول دارا شکوہ اور سید محمد کے ناول آخری سواریاں میں سماجی آہنگی اور قومی اتحاد کی بہترین مثالیں موجود ہیں۔
مشہور ادیب اور صحافی جاوید عالم نے اردو ادب میں قومی شعور کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی فرد کے ذہن میں اپنی قومی زندگی کو بامقصد، بامعنی اور باوقار بنانے کے جذبے کا نام ہی قومی شعور ہے. اسی کے بارے میں میتھلی شرن گپت نے کہا ہے کہ ماضی کے تفاخر پر یقین اور ناز، حب الوطنی، تہذیب کی اصلاح اور آزادی، قومی شعور سے پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹر نازنین منصوری نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان اپنی فطرت کے اعتبار سے اس سانچے میں ڈھلی، جس سانچے میں یہ ملک ڈھلا ہے۔ مختلف زبانوں کا مجموعہ ہونے کے سبب اس کا مزاج جمہوری اور رواداری کا ہے۔ وطن دوستی حب الوطنی اور قوم پرستی کے جذبات اس کے رگ و پے میں سرایت کرتے ہیں. یہی قومی یکجہتی قومیت پر فوقیت دیتی ہے بلکہ یہ ملک کی سالمیت کو استحکام بھی بخشتی ہے۔
اس اجلاس کی نظامت کے فرائض جاوید عالم نے انجام دیے۔دوسرے اجلاس میں شام 7:30 بجے کل ہند ہند مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت معروف شاعر خوشبیر سنگھ شاد نے کی۔ جن شاعروں نے کلام پیش کیا ان کے نام اور اشعار درج ذیل ہیں۔
مرے اندر کئی احساس پتھر ہو رہے ہیں
یہ شیرازہ بکھرنا اب ضروری ہو گیا ہے
خوشبیر سنگھ شاد
آدمی کا دنیا میں ہے قیام ناممکن
جسم بھی مسافر ہے روح بھی مسافر ہے
انور صادقی
میری بنیاد کو تعمیر سے پہچانا جائے
مجھ کو عجلت نہیں تاخیر سے پہچانا جائے
شکیل اعظمی
زندگی کے بوجھ سے جب ٹوٹنے لگتے ہیں پاؤں
جسم کی تہہ کھول کر بستر بنا لیتا ہوں میں
عزم شاکری
جب ہٹا لیتا ہوں سب غیر ضروری چیزیں
خود بچا ہوں کہ نہیں، پھر یہ پتہ کرتا ہوں
مدن موہن دانش
کوئی ملا ہی نہیں جس سے حال دل کہتے
ملا تو رہ گئے لفظوں کے انتخاب میں ہم
علینا عترت
چاند کو چھونے کی ہمت تو نہیں تھی لیکن
گھر کی کھڑکی سے اسے دیکھ لیا کرتے تھے
صابر صہبا
جوان یونہی نہیں ہوگیا ہے تو بیٹے
میں جھک گیا ہوں تیری دیکھ بھال کرتے ہوئے
رئیس انور
سفر کے آخری منظر سے ٹوٹ جاتا ہوں
میں گردشوں سے نہیں گھر سے ٹوٹ جاتا ہوں
ظہیر راز
اس کو ٹھکرا دوں اگر سر پہ بٹھا لے گی مجھے
میں جو پھرتا ہوں ابھی سر پہ یہ دنیا رکھے
حنیف دانش
پتھر کھانے سے اچھا ہے پتھر کو توڑا جائے
عشق اجازت دے تو خود کو مجنوں سے فرہاد کروں
شاہنواز انصاری
موسم ایسے منظر لے کر آئیں گے
آئینے خود پتھر لے کر آئیں گے
تجدید ساقی
زخم، چبھن، صدمے اور آہیں سب ہیں یاروں کے تحفے
تھوڑا تھوڑا سب نے دیا تو راستے کا سامان ملا
دنیش دانش
پُرسکوں بیٹھ ذرا تھام لے ماں کی باہیں
یہ وہ جھولا ہے جو چکّر نہیں آنے دے گا
عمران یوسف زئی
دفن کرنے کا طریقہ تم بتاؤ
یہ زمیں پر دل رکھا مٹی رکھی ہے
دھیرج چوہان
بڑے جتن سے ہم ان کی تصویر پچھلی شب سے بنا رہا ہوں
مٹا رہے ہیں، بنا رہے ہیں، بنا رہے ہیں، مٹا رہے ہیں
ونیت شکلا
چند سکوں میں کہاں تم کو وفا ملتی ہے
باپ کے ہاتھ بھی چومو تو دعا ملتی ہے
اصغر علی اصغر
مشاعرے کے نظامت کے فرائض فریاد بہادر نے انجام دیے. پروگرام میں مقامی ضلع کوآرڈینیٹر شاہنواز انصاری کا تعاون بھی شامل رہا۔پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر نصرت مہدی نے تمام شعرا، مہمانان اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔