سماج کی انقلابی سرگوشیاں اور ڈاکٹر سید مبین زہرہ
ڈاکٹر سید مبین زہرہ کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ اکثر ٹیلی ویژن کے پردے پر کسی حساس موضوع پر بڑی بے باکی اور دلائل کے ساتھ بحث کرتے ہوئے انھیں دیکھتے ہیں۔ڈاکٹر سید مبین زہرہ دہلی یونیورسٹی کے ایک مشہور و معروف کالج میں تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ انھوں نے جے این یو نئی دہلی سے مشہور زمانہ مورخ پروفیسر ہربنس مکھیا کے انڈر میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ اُردو ان کی مادری زبان ہے۔ اُردو تہذیب کی پروردہ ہیں۔ انگریزی اور ہندی زبانوں میں بھی یکساں مقبول ہیں۔ سماج کی دکھتی رگ پہ اکثر انگلی رکھ دیتی ہیں۔ مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں ہوتا بلکہ اپنی غلطیوں اور خامیوں کو پہچان کر انھیں دور کرنے کی ترغیب دینا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سید مبین زہرہ جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور حوصلہ مند خواتین پورے معاشرے کے لئے ایک رول ماڈل ہیں۔ ہماری قوم کی بیٹیاں ان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ بغیر کچھ جانے سمجھے ٹی وی ڈبیٹ میں آنے والے ”مولوی نما“ بھی ڈاکٹر سید مبین زہرہ سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ محترمہ کی باتوں میں صاف گوئی بہت ہے۔ وہ اخبارات کے لئے مستقل کالم بھی لکھتی ہیں۔ نہ صرف اردو اخبارات بلکہ ہندی، انگریزی و دیگر زبانوں کے اخبارات بھی ان کی تحریروں کو شائع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید مبین زہرہ کی ایک اہم کتاب پر ڈاکٹر شفیع ایوب کا ایک تبصرہ شائع ہوا تھا جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ انڈیا نیریٹیو کو خوشی ہے کہ ہم وہ تبصرہ دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ آپ ڈاکٹر سید مبین زہرہ کی اس کتاب پر تبصرہ پڑھیں اور ان کی خدمات کے اعتراف میں معاشرے میں تعلیمی بے داری لانے میں اپنی حصہ داری کو یقینی بنائیں۔ انڈیا نیریٹو ڈاکٹر سید مبین زہرہ اور ڈاکٹر شفیع ایوب کا شکر گزار ہے۔ (ٹیم انڈیا نیریٹو اردو)
نام کتاب : سماج کی انقلابی سرگوشیاں
مصنفہ : ڈاکٹر سید مبین زہرا
ضخامت : 240صفحات
قیمت : 20 1 روپے
ناشر : نور پبلی کیشنز ، 2842 دریا گنج، دہلی
مبصر : ڈاکٹر شفیع ایوب
”سماج کی انقلابی سرگوشیاں“ ڈاکٹر سید مبین زہرا کے ان فکر انگیز مضامین کا مجموعہ ہے جو اخبارات میں شائع ہوئے اور جنھیں بے حد پسند کیا گیا۔ ڈاکٹر سید مبین زہرا دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر ہیں، وہ ایک مورخ، ایک سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار، ایک بے دار ذہن کالم نگار اور بے باک مقرر کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقے میں اپنی شناخت قائم کر چکی ہیں۔ ان کی تحریریں ہندی و انگریزی اخبارات و رسائل میں تواتر سے شائع ہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن پر ہونے والی بحثوں کو ڈاکٹر سید مبین زہرا نے اپنی حاضر جوابی، علمی بصیرت اور دلائل سے با وقار بنانے کا کام کیا ہے۔ ان کی تحریر ہو یا تقریر وہ حقائق کی روشنی میں دلائل کے ساتھ بات کرتی ہیں۔ سماجی مسائل کی باریکیوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ خواتین سے متعلق جو مسائل ہیں اور ان پہ سماج کا جو ردعمل ہے، ان سب پہ وہ گہری نظر رکھتی ہیں۔ ایک اور بات جو سید مبین زہرا کو دیگر لکھنے والوں سے مختلف بناتی ہے، وہ ہے ان کی بے باکی۔اتنی بے باکی سے اپنی بات کہنا اور اس ہنر مندی سے کہنا کہ سامنے والا متاثر بھی ہو، بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ ان کے مضامین اور کالم میں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ”سماج کی انقلابی سرگوشیاں“ میں 57مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مضامین روا روی میں نہیں لکھے گئے ہیں۔ عام طور پر اخباری مضامین تاثراتی قسم کے ہوتے ہیں، جن میں حقائق، اعداد و شمار اور علمی وقار کی کمی پائی جاتی ہے۔ لیکن قابل مبارکباد ہیں ڈاکٹر سید مبین زہرا، جنھوں نے اپنے اخباری مضامین میں جو بھی تجزیہ پیش کیا ہے وہ معتبر اعداد وشمار اور حقائق کی روشنی میں کیا ہے۔ ان کی تحریروں میں سماجی سروکار بھی نمایاں ہیں لیکن یکطرفہ نہیں۔ دبے کچلوں کی آواز بلند کرتی ہیں، سماج کے ننگے سچ کو آئینہ دکھاتی ہیں لیکن کسی فرد یا سماج کے لئے نفرت کا پیغام نہیں دیتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں جا بجا اصلاحی پہلو نظر آتا ہے، ایک بہتر سماج کی تعمیر کی تڑپ نظر آتی ہے۔ ’سڑک پر پھوٹتا غُصّہ‘ ’ہمارے اندر اتنی نفرت کون بھر دیتا ہے‘ ’نوجوانوں میں تشددکا رحجان‘ ’معاشرے میں پنپتی مایوسی اور خود کشی کا بڑھتا رحجان‘ جیسے موضوعات پر لکھے ان کے مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سماجی مسائل پر کتنی گہری نظر رکھتی ہیں۔ یہ وہ سماجی مسائل ہیں جن سے آج ہمارا پورا معاشرہ متاثر ہے۔
خواتین کی زندگی اور خواتین کے مسائل پر گفتگو ڈاکٹر سید مبین زہرا کا پسندیدہ میدان ہے۔ وہ خود ایک بے دار ذہن، اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں اور خواتین کے مسائل سے خوب واقف ہیں۔وہ صرف خواتین کے مسائل کی فہرست سازی نہیں کرتی ہیں بلکہ ان مسائل کی وجوہات تلاش کرتی ہیں اور ان کا عملی حل بھی پیش کرتی ہیں۔ اس کتاب میں شامل کل 57مضامین میں 24مضامین کا تعلق براہ راست خواتین اور خواتین کے مسائل سے ہے۔ وہ واقعات کربلا کو موضوع تحریر بناتی ہیں تو مضمون ”کربلا کی بہادر خاتون۔ زینب“ لکھتی ہیں۔ رمضان اور روزے کی اہمیت پر بات کرتی ہیں تو مضمون ”سحر و افطار میں خواتین کی اہمیت“ تحریر کرتی ہیں۔ وہ دہلی میں ’نربھیا‘ کے حادثہ کو بھی یاد کرتی ہیں اور نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی تقریر کو بھی موضوع بحث بناتی ہیں۔ ”کرائے کی کوکھ پر نیا قانون“ اور ”اعلیٰ تعلیم میں مسلم لڑکیوں کا کم ہونا“ جیسے مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک اچھی اور خوش آئیندبات یہ ہے کہ ڈاکٹر سید مبین زہرا خواتین کے تعلق سے صرف ڈراؤنی تصویر پیش نہیں کرتی ہیں بلکہ خواتین کے تعلق سے سماج میں جو کچھ مثبت ہو رہا ہے اسے بھی اپنے مضامین میں پیش کرتی ہیں۔ خواتین کے کارناموں پر فخر بھی کرتی ہیں اور اسے دوسری خواتین کے لئے قابل تقلید بھی بتاتی ہیں۔
فیمینزم کے کئی روپ زمانے نے دیکھے ہیں۔ ادب میں فیمنزم کا ایک روپ پروین شاکر کی شاعری میں ہے تو دوسرا روپ تسلیمہ نسرین کے
ناولوں میں۔ یورپ میں اپنے ابتدائی دور میں فیمنزم کچھ اور تھا اور تیسری دنیا میں فیمینزم کے کچھ اور رنگ روپ دیکھنے کو ملے۔ ڈاکٹر سید مبین زہرا کی تحریروں میں بھی فیمینزم ہے۔ لیکن اس فیمنیزم میں مجھے انتہا پسندی نظر نہیں آئی۔ اسے ہم مثبت فیمینزم قرار دے سکتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب میں جو مضامین شامل ہیں ان میں فیمینزم کی جھلک ضرور ملتی ہے لیکن یہ محض ”مرد مخالف“ فکر کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خواتین کی حق تلفی پر پُر وقار احتجاج ہے۔ ان کے احتجاج میں چیخ پکار نہیں ہے، ایک ہلکا طنز ہے، کچھ مثبت اشارے ہیں۔ اس سے مضمون نگار کی تعمیری سوچ کا پتہ چلتا ہے۔ مشہور شاعر اور صحافی شکیل حسن شمسی کے پیش لفظ کے ساتھ کتاب خوبصورت سر ورق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ کتابت و طباعت معیاری اور قیمت مناسب ہے۔ ملک و قوم کی تعمیر نو میں یقین رکھنے والوں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔
(مبصر ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)