Urdu News

مشہور فلمی نغمہ نگار اور ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی کا جنم دن ہے آج

 

 
 
 
احتجاج کی بلند آواز ہے ساحر کی شاعری 
ساحر لدھیانوی کی شاعری اور صدائے احتجاج 
مشکل سوالات قائم کرتی ہے ساحر کی شاعری 
ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ وہ ۸ مارچ 1921  کو لدھیانہ کے کریم پورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک زمیندار گھرانے کے چشم و چراغ تھے، ان کے والد متوسط طبقے کے زمیندار تھے۔ لیکن کسی وجہ سے ساحر کی ماں خاوند سے الگ ہو گئی تھیں اور بیٹے کو لیکر ایک معمولی سے مکان میں رہنے لگی تھیں۔ ساحر اور ان کی والدہ کی کفالت ان کے ماموں کرتے تھے۔ ساحر نے ابتدائی تعلیم خالصہ ہائی اسکول لدھیانہ میں حاصل کی اور پھر گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں زیرِ تعلیم رہے۔ عبدالحئی نام کے جس بچے نے بچپن میں اپنی ماں کی مجبوریاں اور اپنی محرومیاں دیکھی تھیں، اس بچے نے ساحر بن کے دنیا میں خوب نام کمایا لیکن اس کے دل میں ایک کسک ہمیشہ باقی رہی۔ بچپن کے نا مساعد حالات نے اس کے باغیانہ خیالات کو جلا بخشی۔ ساحر کالج میں بھی اپنی باغیانہ اور انقلابی نظموں کی وجہ سے مقبول ہوا۔ ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا تو پندرہ سال کا نوجوان ساحر بے حد متاثر ہوا۔ اس وقت اس کی شاعری کا آغاز ہو چکا تھا۔ فراق، فیض، جوش، مخدوم محی الدین، جاں نثار اختر، مجاز، مجروح سلطان پوری، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی جیسے ترقی پسند شاعروں میں سب سے کم عمر ساحر تھے۔ لیکن فلمی دنیا میں سب سے زیادہ کامیابی ساحر کے حصے میں آئی۔ 
ساحر ایک بار ممبئی (تب بمبئی) پہنچے تو ممبئی کی خاک میں ہی دفن ہوئے۔ حالانکہ  ۷۴۹۱؁ء میں ملک کی تقسیم ہوئی تو ساحر لاہور میں بس گئے تھے۔ آزادی ہند اور تقسیم وطن سے دو سال پہلے ہی وہ لاہور میں اپنا اولین شعری مجموعہ ترتیب دے رہے تھے۔ جو ”تلخیاں“ کے نام سے شائع ہوا۔ ظاہر سی بات ہے ساحر نے بچپن سے جن محرومیوں کو دیکھا تھا اس نے اسے بے حد حسّاس بنا دیا تھا۔ اس کی شاعری میں بغاوت اور احتجاج کی صدا بلند ہو رہی تھی۔ وہ خود جس کرب سے گزرا تھا اسے لفظوں کا جامہ پہنا رہا تھا۔ 
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں 
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں 
ساحر لاہور میں ہی مقیم تھے کہ ملک کا تقسیم عمل میں آیا۔ بڑی اتھل پتھل تھی۔ افرا تفری کا ماحول تھا۔ لاہور سے ساحر کے بہت سے ہندو اور سکھ دوست ممبئی چلے آئے۔ ساحر نے بھی لاہور چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں نے مسلم ملک پاکستان میں رہنے کے بجائے سیکولر ہندوستان میں رہنا پسند کیا اور ممبئی واپس لوٹ آئے۔ اگر وہ ممبئی واپس نہ آتے تو ہماری فلم انڈسٹری ساحر کے فلمی نغموں سے محروم رہتی۔ پھر تو زمانے نے دیکھا کہ ساحر نے ہندوستان اور ہندوستانی فلموں کو کیا دیا۔ 
ساحر لدھیانوی کا شمار اپنے زمانے کے مشہور ترین، کامیاب ترین اور مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے۔ ادبی حلقوں میں بھی ساحر کی پذیرائی ہوئی۔ کالج سے یونیورسٹی سطح تک نصاب میں ساحر کی نظموں کو شامل کیا گیا۔ ایک زمانے تک مشاعروں میں ساحر کی شرکت سے مشاعروں کا وقار بلند ہوتا تھا۔ ساحر کی موجودگی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتا تھا۔ اور جہاں تک ساحر کی فلمی نغمہ نگاری کا سوال ہے تو ساحر کے نغمے فلموں کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے کے تمام بڑے فلم میکر اپنی فلموں میں بطور نغمہ نگار ساحر کو لینے کی خواہش رکھتے تھے۔ ساحر جس وقت ممبئی میں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے اس وقت اردو کے کئی مایہ ناز ادیب و شاعر ممبئی میں تھے۔ شاعروں میں مجروح سلطان پوری، جاں نثار اختر، اختر الایمان، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی تو ادیبوں میں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور عصمت چغتائی جیسی بلند مرتبہ شخصیات فلم انڈسٹری سے وابستہ تھیں۔ 
اختر الا یمان کے علاوہ باقی شاعر فلموں کے لئے نغمے لکھ رہے تھے۔ اخترالا یمان واحد ایسے شاعر تھے جو تقریباً پچاس برس فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے لیکن انھوں نے فلموں کے لئے نغمے نہیں لکھے۔ انھوں نے اسکرپٹ رائٹر اور ڈائلاگ رائٹر کے طور پہ اپنی پہچان بنائی۔
 
  سردار جعفری، جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی نے فلموں کے لئے بہت نغمے لکھے۔ اور مجروح سلطان پوری تو اپنی فلمی نغمہ نگاری کے لئے ہی شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ ساحر کی فلمی مقبولیت کے سامنے کوئی اور نہیں ٹھہر سکا۔ ساحر کی مقبولیت نے ہم عصروں میں رقابت کا جذبہ بھی پیدا کیا۔ اس زمانے میں ممبئی میں ہر مہینے کے آخری اتوار کو ترقی پسند ادیبوں کا ادبی اجتماع ہوا کرتا۔ اس ادبی محفل کے روح رواں علی سردار جعفری ہوتے تھے۔ افسانہ نگار اپنے افسانے سناتے اور شاعر اپنی نظمیں غزلیں سناتے اور گرما گرم بحثیں ہوتیں۔ علی سردار جعفری ساحر کی شاعری کو ہنگامی شاعری سے تعبیر کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ ساحر کی شاعری میں گہرائی نہیں ہے۔ ایسے ہی کسی ادبی جلسے میں علی سردار جعفری نے ساحر کی شاعری پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ساحر بی اے کے طالب علموں کا شاعر ہے۔ساحر نے جواب میں کہا کہ سردار بھائی نے جو کچھ کہا اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ اب میری شاعری کبھی فنا نہیں ہوگی کیونکہ بی اے کے طالب علم تو ہر زمانے میں موجود رہیں گے۔ اسی طرح ایک بار ساحر نے کیفی اعظمی کی شاعری پر کڑی تنقید کی۔ ساحر نے بے شمار دلیلیں پیش کر کے کیفی کو ایک گھٹیا شاعر قرار دیا۔ کیفی اعظمی نے تو کچھ نہیں کہا لیکن علی سردار جعفری کو یہ بات بہت بری لگی۔ اگلے مہینے جب ادبی نشست میں سب جمع ہوئے تو علی سردار جعفری نے پُرزور تقریر کی اور تمام دلائل پیش کر کے ساحر کو گھٹیا شاعر قرار دیا۔ سبھی کے ساتھ ساحر بھی نشست میں موجود تھے اور علی سردار جعفری کے زور بیان سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب سردار بول کے بیٹھے تو ساحر نے صرف اتنا کہا کہ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ کیفی گھٹیا شاعر نہیں ہے؟ 
ساحر کا پہلا مجموعہ ”تلخیاں“ شائع ہوا تو ہر طرف اس کی دھوم تھی۔ اس مجموعے کے دس سے زیادہ ایڈیشن چند برسوں میں فروخت ہو گئے۔ ان کی طویل نظم ”پرچھائیاں“ شائع ہوئی تو اسے بھی ہر خاص و عام نے پسند کیا۔ ساحر کی شاعری میں تلخی بہت ہے۔ شاید اسی لئے پہلے مجموعے کا نام بھی ”تلخیاں“ ہے۔ اس کی شاعری میں سوالات بہت ہیں۔ وہ سماج سے سوال کرتا ہے۔ زمانے سے سوال کرتا ہے۔ اس کے لہجے میں تلخی آجاتی ہے۔ وہ طنز کے تیر بھی چلاتا ہے۔ وہ ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھتا ہے۔ وہ خواب دیکھنے کو اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ وہ زیادہ خوبصورت دنیا کا ایک تصور لیکر زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ اپنے ہم عصروں سے ذرا مختلف سوچتا ہے۔ کئی ناقدین ادب نے اس کی سوچ کو منفی بھی قرار دیا ہے۔ لیکن ساحر کی یہی انفرادیت اسے ایک پہچان بھی عطا کرتی ہے۔  ۹۶۹۱؁ء میں ہندوستان میں غالب صدی منانے کا اہتمام کیا گیا۔ غالب کے انتقال کو سو برس پورے ہو رہے تھے۔ ملک بھر میں غالب صدی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ حکومتِ ہند کا تعاون بھی حاصل تھا۔ ساحر نے جشن ِ غالب کے عنوان سے نظم لکھ کر کئی سوالات قائم کر دیئے۔ وہ پورے نظام پہ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اکیس   برس  گزرے  آزادی   کامل  کو 
تب جا کے کہیں ہم کو  غالب   کا   خیال  آیا
تربت ہے کہاں اس کی  مسکن تھا  کہاں اس کا 
اب اپنے  سخن پرور  ذہنوں  میں  سوا ل  آیا۔ 
سو  سال سے  جو  تربت  چادر  کو  ترستی  تھی 
  اب اس پہ  عقیدت کے  پھولوں کی  نمائش  ہے
اردو  کے  تعلق  سے  کچھ  بھید  نہیں   کھلتا 
یہ جشن،  یہ  ہنگامہ، خدمت  ہے  کہ  سازش ہے۔
ساحر کی یہ آواز بالکل مختلف آواز تھی۔ جب ملک بھر میں جشن غالب کی دھوم ہو ایسے میں ساحر کا یہ طنز اہل اقتدار کے لئے نا قابل برداشت تھا۔ لیکن حقیقت تو یہی تھی کہ آزادی کے بعد اردو کو اس کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں جب حکومت کی نوازشوں کی بات سامنے آئی تو ساحر نے سوال کیا کہ یہ کوئی سازش تو نہیں؟ 
جن شہروں میں گونجی تھی غالب کی نوا  برسوں 
ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشاں ٹھہری
آزادی  کامل  کا  اعلان  ہوا  جس   دن 
معتوب زباں  ٹھہری،  غدار  زباں  ٹھہری  
جس عہد سیاست نے یہ  زندہ  زباں  کچلی
اس عہد سیاست کو  مرحوموں کا غم کیوں ہے
غالب جسے کہتے ہیں،  اردو  ہی  کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھا کر غالب پہ  کرم کیوں ہے۔   سردار جعفری، جاں نثار اختر اور کیفی اعظمی نے فلموں کے لئے بہت نغمے لکھے۔ اور مجروح سلطان پوری تو اپنی فلمی نغمہ نگاری کے لئے ہی شہرت رکھتے ہیں۔ لیکن اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ ساحر کی فلمی مقبولیت کے سامنے کوئی اور نہیں ٹھہر سکا۔ ساحر کی مقبولیت نے ہم عصروں میں رقابت کا جذبہ بھی پیدا کیا۔ اس زمانے میں ممبئی میں ہر مہینے کے آخری اتوار کو ترقی پسند ادیبوں کا ادبی اجتماع ہوا کرتا۔ اس ادبی محفل کے روح رواں علی سردار جعفری ہوتے تھے۔ افسانہ نگار اپنے افسانے سناتے اور شاعر اپنی نظمیں غزلیں سناتے اور گرما گرم بحثیں ہوتیں۔ علی سردار جعفری ساحر کی شاعری کو ہنگامی شاعری سے تعبیر کرتے۔ ان کا خیال تھا کہ ساحر کی شاعری میں گہرائی نہیں ہے۔ ایسے ہی کسی ادبی جلسے میں علی سردار جعفری نے ساحر کی شاعری پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ساحر بی اے کے طالب علموں کا شاعر ہے۔ساحر نے جواب میں کہا کہ سردار بھائی نے جو کچھ کہا اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ اب میری شاعری کبھی فنا نہیں ہوگی کیونکہ بی اے کے طالب علم تو ہر زمانے میں موجود رہیں گے۔ اسی طرح ایک بار ساحر نے کیفی اعظمی کی شاعری پر کڑی تنقید کی۔ ساحر نے بے شمار دلیلیں پیش کر کے کیفی کو ایک گھٹیا شاعر قرار دیا۔ کیفی اعظمی نے تو کچھ نہیں کہا لیکن علی سردار جعفری کو یہ بات بہت بری لگی۔ اگلے مہینے جب ادبی نشست میں سب جمع ہوئے تو علی سردار جعفری نے پُرزور تقریر کی اور تمام دلائل پیش کر کے ساحر کو گھٹیا شاعر قرار دیا۔ سبھی کے ساتھ ساحر بھی نشست میں موجود تھے اور علی سردار جعفری کے زور بیان سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب سردار بول کے بیٹھے تو ساحر نے صرف اتنا کہا کہ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ کیفی گھٹیا شاعر نہیں ہے؟ 
ساحر کا پہلا مجموعہ ”تلخیاں“ شائع ہوا تو ہر طرف اس کی دھوم تھی۔ اس مجموعے کے دس سے زیادہ ایڈیشن چند برسوں میں فروخت ہو گئے۔ ان کی طویل نظم ”پرچھائیاں“ شائع ہوئی تو اسے بھی ہر خاص و عام نے پسند کیا۔ ساحر کی شاعری میں تلخی بہت ہے۔ شاید اسی لئے پہلے مجموعے کا نام بھی ”تلخیاں“ ہے۔ اس کی شاعری میں سوالات بہت ہیں۔ وہ سماج سے سوال کرتا ہے۔ زمانے سے سوال کرتا ہے۔ اس کے لہجے میں تلخی آجاتی ہے۔ وہ طنز کے تیر بھی چلاتا ہے۔ وہ ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھتا ہے۔ وہ خواب دیکھنے کو اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ وہ زیادہ خوبصورت دنیا کا ایک تصور لیکر زندگی بسر کرتا ہے۔ وہ اپنے ہم عصروں سے ذرا مختلف سوچتا ہے۔ کئی ناقدین ادب نے اس کی سوچ کو منفی بھی قرار دیا ہے۔ لیکن ساحر کی یہی انفرادیت اسے ایک پہچان بھی عطا کرتی ہے۔  ۹۶۹۱؁ء میں ہندوستان میں غالب صدی منانے کا اہتمام کیا گیا۔ غالب کے انتقال کو سو برس پورے ہو رہے تھے۔ ملک بھر میں غالب صدی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ حکومتِ ہند کا تعاون بھی حاصل تھا۔ ساحر نے جشن ِ غالب کے عنوان سے نظم لکھ کر کئی سوالات قائم کر دیئے۔ وہ پورے نظام پہ طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اکیس   برس  گزرے  آزادی   کامل  کو 
تب جا کے کہیں ہم کو  غالب   کا   خیال  آیا
تربت ہے کہاں اس کی  مسکن تھا  کہاں اس کا 
اب اپنے  سخن پرور  ذہنوں  میں  سوا ل  آیا۔ 
سو  سال سے  جو  تربت  چادر  کو  ترستی  تھی 
  اب اس پہ  عقیدت کے  پھولوں کی  نمائش  ہے
اردو  کے  تعلق  سے  کچھ  بھید  نہیں   کھلتا 
یہ جشن،  یہ  ہنگامہ، خدمت  ہے  کہ  سازش ہے۔
ساحر کی یہ آواز بالکل مختلف آواز تھی۔ جب ملک بھر میں جشن غالب کی دھوم ہو ایسے میں ساحر کا یہ طنز اہل اقتدار کے لئے نا قابل برداشت تھا۔ لیکن حقیقت تو یہی تھی کہ آزادی کے بعد اردو کو اس کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ ایسے میں جب حکومت کی نوازشوں کی بات سامنے آئی تو ساحر نے سوال کیا کہ یہ کوئی سازش تو نہیں؟ 
جن شہروں میں گونجی تھی غالب کی نوا  برسوں 
ان شہروں میں اب اردو بے نام و نشاں ٹھہری
آزادی  کامل  کا  اعلان  ہوا  جس   دن 
معتوب زباں  ٹھہری،  غدار  زباں  ٹھہری  
جس عہد سیاست نے یہ  زندہ  زباں  کچلی
اس عہد سیاست کو  مرحوموں کا غم کیوں ہے
غالب جسے کہتے ہیں،  اردو  ہی  کا شاعر تھا
اردو پہ ستم ڈھا کر غالب پہ  کرم کیوں ہے۔  
 اسی طرح ساحر کی ایک مشہور نظم ہے ”ائے شریف انسانوں“ جو کہ ہندوستان پاکستان کی جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ اور اس نظم کو معاہدہ تاشقند کی سالگرہ پر نشر کیا گیا۔ یہ نظم جنگ کے فلسفے کے خلاف ایک بہترین نظم ہے۔ دنیا میں جہاں بھی اور جب بھی کوئی جنگ کی بات کرے گا تو یہ نظم جنگ کے فلسفے کے خلاف امن پسندوں کا ہتھیار بنے گی۔ 
 
خون   اپنا    ہو   یا   پرایا   ہو،
نسل  ِ آد م  کا  خون  ہے   آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب  میں 
امن  ِ عالم  کا  خون  ہے  آخر
بم گھروں پر گریں،  کہ سرحد  پر  
روحِ    تعمیر  زخم  کھاتی  ہے 
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں  کے 
زیست فاقوں سے  تلملاتی  ہے 
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے  ہٹیں 
کوکھ دھرتی کی  بانجھ  ہوتی  ہے
فتح کا جشن ہو  کہ  ہار  کا  سوگ    
زندگی    میتوں  پہ  روتی  ہے
جنگ  تو  خود  ایک  مسئلہ  ہے 
جنگ کیا  مسئلوں  کا  حل  دیگی  
یہی وہ بنیادی بات تھی جسے ساحر دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ جنگ خود ہی ایک مسئلہ ہے۔ ہم نے جنگ سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ کیونکہ جنگ کسی مسئلہ کا حل ہے ہی نہیں۔ ساحر کہتے ہیں کہ جنگ سے صرف بربادی ہوگی۔ ادھر بربادی ہو یا اُدھر بربادی ہو۔ انسانیت کا نقصان ہوگا۔ دھرتی کی کوکھ بانجھ ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ: 
جنگ کیا  مسئلوں  کا  حل  دیگی 
آگ  اور  خون  آ ج  بخشے  گی 
بھوک  او ر  احتیاج   کل  دیگی
اس لئے ائے  شریف  انسانوں!
جنگ  ٹلتی  رہے  تو  بہتر  ہے 
آپ  اور ہم سبھی کے  آنگن میں 
شمع  جلتی  رہے  تو  بہتر  ہے۔ 
ساحر کی شاعری میں عشق و محبت کے نغمے بھی ہیں۔ ان کی رومانی نظمیں بھی اثر رکھتی ہیں۔ رومان بھی ان کی شاعری کا اہم جز ہے۔ لیکن کئی بار وہ رومان کی دنیا سے بہت بے زار بھی نظر آتے ہیں۔ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔ زمانے کی ناہمواریوں کی بات کرتے ہیں۔ جب ان پہ بار بار انقلاب کی باتیں کرنے کا الزام آید کیا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں: 
میرے  سرکش  ترانے  سن کے  دنیا   یہ  سمجھتی ہے 
کہ شاید میرے دل کو عشق کے  نغمو ں سے  نفرت ہے
مجھے   ہنگامہ  جنگ  و جدل  میں   کیف  ملتا   ہے 
مری  فطرت  کو خونریزی کے افسانوں سے رغبت ہے اسی طرح ساحر کی ایک مشہور نظم ہے ”ائے شریف انسانوں“ جو کہ ہندوستان پاکستان کی جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ اور اس نظم کو معاہدہ تاشقند کی سالگرہ پر نشر کیا گیا۔ یہ نظم جنگ کے فلسفے کے خلاف ایک بہترین نظم ہے۔ دنیا میں جہاں بھی اور جب بھی کوئی جنگ کی بات کرے گا تو یہ نظم جنگ کے فلسفے کے خلاف امن پسندوں کا ہتھیار بنے گی۔ 
 
خون   اپنا    ہو   یا   پرایا   ہو،
نسل  ِ آد م  کا  خون  ہے   آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب  میں 
امن  ِ عالم  کا  خون  ہے  آخر
بم گھروں پر گریں،  کہ سرحد  پر  
روحِ    تعمیر  زخم  کھاتی  ہے 
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں  کے 
زیست فاقوں سے  تلملاتی  ہے 
ٹینک آگے بڑھیں کہ پیچھے  ہٹیں 
کوکھ دھرتی کی  بانجھ  ہوتی  ہے
فتح کا جشن ہو  کہ  ہار  کا  سوگ    
زندگی    میتوں  پہ  روتی  ہے
جنگ  تو  خود  ایک  مسئلہ  ہے 
جنگ کیا  مسئلوں  کا  حل  دیگی  
یہی وہ بنیادی بات تھی جسے ساحر دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ جنگ خود ہی ایک مسئلہ ہے۔ ہم نے جنگ سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ کیونکہ جنگ کسی مسئلہ کا حل ہے ہی نہیں۔ ساحر کہتے ہیں کہ جنگ سے صرف بربادی ہوگی۔ ادھر بربادی ہو یا اُدھر بربادی ہو۔ انسانیت کا نقصان ہوگا۔ دھرتی کی کوکھ بانجھ ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ: 
جنگ کیا  مسئلوں  کا  حل  دیگی 
آگ  اور  خون  آ ج  بخشے  گی 
بھوک  او ر  احتیاج   کل  دیگی
اس لئے ائے  شریف  انسانوں!
جنگ  ٹلتی  رہے  تو  بہتر  ہے 
آپ  اور ہم سبھی کے  آنگن میں 
شمع  جلتی  رہے  تو  بہتر  ہے۔ 
ساحر کی شاعری میں عشق و محبت کے نغمے بھی ہیں۔ ان کی رومانی نظمیں بھی اثر رکھتی ہیں۔ رومان بھی ان کی شاعری کا اہم جز ہے۔ لیکن کئی بار وہ رومان کی دنیا سے بہت بے زار بھی نظر آتے ہیں۔ انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔ زمانے کی ناہمواریوں کی بات کرتے ہیں۔ جب ان پہ بار بار انقلاب کی باتیں کرنے کا الزام آید کیا جاتا ہے تو وہ جواب دیتے ہیں: 
میرے  سرکش  ترانے  سن کے  دنیا   یہ  سمجھتی ہے 
کہ شاید میرے دل کو عشق کے  نغمو ں سے  نفرت ہے
مجھے   ہنگامہ  جنگ  و جدل  میں   کیف  ملتا   ہے 
مری  فطرت  کو خونریزی کے افسانوں سے رغبت ہے 
 
 لیکن 
میرے سرکش ترانوں کی  حقیقت  ہے  تو  اتنی ہے 
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو 
غریبوں  مفلسوں  کو،  بے کسوں کو، بے سہاروں کو 
سسکتی   نازنینوں   کو،   تڑپتے   نوجوانوں  کو 
حکومت  کے  تشدّد  کو،  امامت  کے  تکبّر  کو 
کسی  کے  چیتھڑوں کو  اور  شہنشا  ہی  خزانوں کو 
تو دل  تابِ  نشاطِ  بزمِ  عشرت  لا  نہیں  سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے  گا  نہیں سکتا۔
یہ صرف ساحر کی فکر نہیں تھی بلکہ تمام ترقی پسند شعراء اس کرب سے گزر رہے تھے۔ وہ مجاز ہوں یا مخدوم، جاں نثار اختر ہوں یا کیفی اعظمی۔ سب رومان اور انقلاب کے درمیان سفر کر رہے تھے۔ ساحر بھی اپنے ہم عصروں سے سوال کرتے ہیں: 
زمانہ بر سرِ پیکار ہے پُر ہول شعلوں سے 
تیرے لب پہ ابھی تک نغمہ خیام ہے ساقی؟
 
ساحر لدھیانوی کے بارے میں ان کے کئی ہم عصروں کا بیان ہے کہ ساحر نرگیسیت کے شکار تھے۔ ان کی بے پناہ کامیابی نے ان کو زمینی حقیقت سے دور کر دیا تھا۔ وہ کئی طرح کے کمپلکس کے شکار تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے زمانے میں ساحر کسی فلم اسٹار کی طرح مقبول تھے۔ ۰۷۹۱؁ء میں انھوں نے اپنا شاندار بنگلہ بنایا جس کا نام ”پرچھائیاں“ رکھا۔ وہ کسی فلم اسٹار کی طرح اپنے شاندار بنگلے میں رہتے تھے۔ وہاں دوستوں کی پُر تکلف دعوت کرتے، انھیں برانڈیڈ شراب پلاتے اور ان سے اپنی تعریف سنتے۔ پرکاش پنڈت ایک مرتبہ ساحر سے ملنے ان کے بنگلے پر پہنچے تو دیکھا کہ اس زمانے کے ایک بڑے فلم پروڈیوسر صوفے پہ بیٹھے پہلو بدل رہے ہیں۔ اندر جاکر دیکھا تو ساحر آرام سے ٹہلتے ہوئے سگریٹ پی رہے ہیں۔ پرکاش پنڈت نے اس بے رخی کی وجہ دریافت کی تو ساحر نے بڑے اعتماد سے کہا کہ میں جب تک اس کی فلم سائن نہیں کروں گا یہ پروڈیوسر یہاں سے جانے والا نہیں ہے۔ اسے پہلو بدلتے دیکھتا ہوں تو سکون ملتا ہے۔ ایک زمانے میں میں اس پروڈیوسر کے آفس کے بہت چکر لگایا کرتا تھا۔  
ساحر 25 اکتوبر 1980   کو اس دنیا سے یہ کہتے ہوئے چل بسے کہ کل اور بھی کتنے آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے۔ مجھ سے بہتر کہنے والے، تم سے بہتر سننے والے۔ 
 
(ڈاکٹر شفیع ایوب، سی آئی ایل، جے این یو،  نئی دہلی)  
Dr. Shafi Ayub                                    
Centre of Indian Languages, SLL&CS/ JNU. New Delhi -110067       
shafiayub75@rediffmail.com

Recommended