Urdu News

ذرا مختلف تو تھے رام ولاس پاسوان

ذرا مختلف تو تھے رام ولاس پاسوان

ذرا مختلف تو تھے رام ولاس پاسوان

مرکزی وزیر اور لوک جن شکتی پارٹی کے بانی و دلت لیڈر رام ولاس پاسوان 8اکتوبر 2020کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ کچھ روز پہلے دہلی کے ایک پرایؤیٹ اسپتال میں ان کا دل کا آپریشن ہوا تھا۔ 74سالہ رام ولاس پاسوان یوں کچھ ماہ پہلے تک بظاہر تندرست تھے۔ لیکن موت کا بھروسہ کیا۔ رام ولاس پاسوان کے انتقال پر نہ صرف ان کے اہل خانہ اور دلت غم زدہ اور اداس ہیں بلکہ ان کے سیاسی حریف بھی غم زدہ ہیں۔ رام ولاس پاسوان کو ایک مفاد پرست اور چالاک سیاست داں لکھا، بولا اور کہا جاتا رہا ہے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد آپ کو لگا ہوگا کہ مین اسٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک اس شخص کے بارے میں جس نے بھی لکھا ہے اس نے پاسوان کے ایک اچھا انسان ہونے کا ذکر ضرور کیا ہے۔
راقم السطور کو کئی بار پاسوان جی سے ملنے اور باتیں کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان کو ان کے گھر میں دیکھا ہے،ان کو کام کرتے دیکھا ہے، ان کو میزبانی کے فرائض انجام دیتے دیکھا ہے۔ وہ ذرا مختلف تو تھے۔ پچاس سال سیاست میں سرگرم رہے۔ بہت کم عمری میں سیاست میں آئے۔ 1969میں وہ بہار میں ڈی ایس پی کے لئے منتخب ہوئے۔ لیکن پولیس افسری چھوڑ کر اپنے لئے سیاست کا راستہ اختیار کیا۔ اسی سال بہت کم عمری میں بہار اسمبلی کے ممبر چن لئے گئے۔ غریب گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنی محنت اور لگن سے ہندوستانی سیاست میں اپنی پہچان قائم کی۔ اور اس سچ سے انکار ممکن نہیں کہ بابا صاحب امبیڈکر، جگ جیون رام اور کانسی رام کے بعد دلت راجنیتی کا وہ سب سے بڑا اور محترم نام تھے۔ مایا وتی کئی بار وزیر اعلیٰ رہنے کے بعد بھی دلتوں میں وہ مقام اور عزت حاصل نہ کر سکیں جو ان چاروں کا مقدر بنا۔رام ولاس پاسوان کی سیاست اگرچہ بہار تک محدود رہی لیکن وہ ہندوستان گیر شہرت اور مقبولیت رکھتے تھے۔ ان کی سیاست اور سیاسی بازیگری پر اس وقت کچھ نہیں۔ ان کی دوسری شادی اور پہلی بیوی کو طلاق دینے نہ دینے پر اس وقت کچھ نہیں۔ انھیں سب سے پہلے ”موسم وگیانی“ کا لقب دے کر ان کا مذاق اڑانے والے لالو پرساد یادو سے ان کے رشتوں کے بارے میں بھی اس وقت کچھ نہیں۔ واضح رہے کہ جے پی آندولن سے نکلنے والے نیتاؤں میں شرد یادو، ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو، نتیش کمار، سشیل کمار مودی، روی شنکر پرساد کے ساتھ رام ولاس پاسوان بھی ایک اہم نام تھے۔ یہ سب نوجوان جے پی آندولن میں جیل گئے۔ بعد میں روی شنکر پرساد اور سشیل کمار مودی نے آر ایس ایس اور بی جے پی کی طرف رخ کیا اور باقی تمام نے سماجواد کی راہ پکڑی۔ رام ولاس پاسوان عمر میں لالو پرساد یادو سے دو سال اور نتیش کمار سے پانچ سال بڑے تھے۔ لیکن تینوں میں دوستی زبردست رہی۔ سیاسی اسٹیج پر ایک دوسرے کو جو بھی کہتے ہوں لیکن ذاتی طور پر ایک دوسرے کے دوست بنے رہے۔ ابھی اس دوستی کے بارے میں بھی کچھ نہیں۔ ابھی کچھ نجی مشاہدات۔
ان دنوں میں مشہور اردو ہفتہ وار ”نئی دنیا“ میں بطور سب ایڈیٹر کام کر رہا تھا۔ چیف ایڈیٹر اور مالک ”نئی دنیا“ شاہد صدیقی صاحب ابھی ممبر آف پارلیامنٹ نہیں بنے تھے۔ دلّی میں بستی حضرت نظام الدین کے تین اہم حصے ہیں۔ بستی کے علاوہ نظام الدین ایسٹ اور نظام الدین ویسٹ۔ نظام الدین ویسٹ میں دو اہم علمی، ادبی اور صحافتی شخصیات کے مکانات تب بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ الرسالہ والے عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر اور کسی حد تک متنازع مولانا وحید الدین خاں اور مشہور صحافی، عالم دین، سیاسی رہنما اور مجاہد آزادی مولانا عبد الوحید صدیقی کے تیسرے بیٹے شاہد صدیقی کے مکانات (کوٹھیاں) آس پاس ہیں۔ الرسالہ اور صاحب الرسالہ کی باتیں پھر کبھی۔ ابھی صرف نئی دنیا کی باتیں کہ وہیں سے رام ولاس پاسوان سے ملاقاتوں کا سلسہ شروع ہوا۔”نئی دنیا“ کے دفتر میں ادارتی ٹیم کا میں سب سے جونیئر ممبر تھا۔جمشید عادل علیگ، احمد جاوید، چودھری نفیس الرحمن، غلام احمد صاحب، انجم نعیم اور حقانی القاسمی وغیرہ جیسے احباب کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع ملا۔ جمشید عادل علیگ سے ملاقات کے فوراً بعد اندازہ ہوا کہ یہ غیر معمولی آدمی ہے۔اہل سیاست سے ان کے ذاتی مراسم کا علم بھی ہوا۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں ہو رہی کہ اب تک کی زندگی میں راقم السطور جن لوگوں سے ملا ہے ان میں سب سے دلچسپ اور عجیب و غریب شخصیت جمشید عادل علیگ کی ہی ہے۔ ”نئی دنیا“ کے دفتر میں ایک شام کہنے لگے بھائی شفیع ایوب چلیں شام کی چائے رام ولاس جی کے گھر پینی ہے۔ میں نے کہا اب گھر جانے کا وقت ہو رہا۔ کہنے لگے آپ کو جے این یو جانا ہے، رام ولاس جی جن پتھ پہ رہتے ہیں، رام ولاس جی سے مل کے، ایک کپ چائے پی کے وہیں سے چلے جائیے گا۔ خیر میں ان کے ساتھ ”نئی دنیا“ کے دفتر سے باہر نکلا۔ آٹو رکشہ لینا چاہا تو جمشید بھائی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ بولے کاہے لئے فالتو پیسہ خرچ کریں گے۔ بس سے چلیں گے، دس روپیہ میں پہنچ جائیں گے۔ گویا ہم ڈی ٹی سی کی بس سے نظام الدین ویسٹ سے جن پتھ پہنچے۔ جن پتھ پہ 12نمبر بنگلہ ایک زمانے سے رام ولاس پاسوان کے نام الاٹ ہے۔ جبکہ سیاست پہ نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ 10جن پتھ سونیا گاندھی کا بنگلہ ہے۔ یعنی ایک زمانے سے سونیا گاندھی اور رام ولاس پاسوان پڑوسی ہیں۔ نئی دہلی میں انڈیا گیٹ سے نیشنل میوزیم کی طرف بڑھیں مولانا آزاد روڈ اور جن پتھ کراسنگ پر کارنر کا بنگلہ رام ولاس پاسوان کا ہے۔ میں پہلی بار مشہور صحافی جمشید عادل علیگ کے ساتھ 12جن پتھ پہنچا تھا۔ مین گیٹ پر چار ہتھیار بند سپاہی کھڑے تھے۔ ایک ملازم نے جمشید عادل کو دیکھ کر بغیر کوئی سوال پوچھے مین گیٹ میں چھپے ہوئے چھوٹے دروازے کو کھول دیا۔ اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک بڑا ہال بنا ہوا تھا۔ اس ہال میں داخل ہوئے تو دیکھا سامنے کرسی پر رام ولاس پاسوان بیٹھے ہیں، سامنے کی کرسیوں پر پندرہ بیس غریب، پسماندہ سے دکھنے والے کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔ ہم بھی جمشید عادل کے ساتھ ایک کنارے کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ رام ولاس جی ایک ایک کر کے ہر آدمی کو اپنے پاس بلاتے تھے اور اس سے کچھ بات کرتے تھے، ساتھ میں کھڑے اپنے اسسٹنٹ کو کچھ ہدایات دیتے جاتے۔ کسی کسی شخص کو اپنے پرس سے کچھ روپے نکال کے دیتے۔ ایک آدمی کو فوراً اپنی گاڑی سے ایمس لے جانے کو کہا۔ ایک آدمی کے لئے ٹرین کا ٹکٹ بنانے کو کہا۔ ہم خاموش بیٹھے رہے۔ رام ولاس جی اپنے کام میں مصروف تھے۔ مجھے جمشید عادل پر غصہ بھی آ رہا تھا کہ چائے پلانے لائے اور یہاں تو یہ آدمی ہمارے آنے کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ وہیں بیٹھے بیٹھے جمشید عادل نے ایک صاحب سے تعارف کرایا کہ یہ عباس بھائی ہیں چھپرہ کے۔ مجھے جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔ کیونکہ چائے وائے کا تو کچھ اتا پتا نہیں۔ ہماری طرف کوئی توجہ بھی نہیں۔ اس درمیان رام ولاس جی ایک ایک کر کے سبھی لوگوں سے مل چکے تھے۔ اب اس ہال میں میرے علاوہ جمشید عادل علیگ، رام ولاس پاسوان جی، ان کے اسسٹنٹ اور ایک دو ملازمین تھے۔ کرسی سے اٹھتے ہوئے رام ولاس پاسوان نے بہت اپنائیت سے کہا آئیے جمشید بھائی، اندر ہی بیٹھتے ہیں۔ جمشید عادل علیگ نے جھٹ سے میرا تعارف کرایا۔ ”بھائی ہیں، شفیع ایوب، جے این یو سے جرنلزم میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اپنے ہی طرف کے ہیں۔“ رام ولاس پاسوان نے بڑے پیار سے ہاتھ آگے بڑھایا اور ہاتھ پکڑے ہوئے کچھ جے این یو کے بارے میں پوچھتے ہوئے بنگلے کی اصل عمارت کی طرف بڑھے۔ اندر ڈرائنگ روم میں ان کے بھائی رام چندر پاسوان (جو اس وقت خود بھی ممبر آف پارلیامنٹ تھے اور پانچ سو میٹر کی دوری پر ہوٹل لے میریڈین کے سامنے والے بنگلے میں رہتے تھے) پہلے سے موجود تھے۔ ہم سب صوفے پر بیٹھے۔ رام ولاس پاسوان لگاتار جے این یو کے بارے میں کچھ پوچھ رہے تھے اور کچھ بتا رہے تھے۔ ان کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ جے این یو کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں خاصی جانکاری رکھتے ہیں۔ وہ مرکزی وزیر تھے، دنیا جہان کی مصروفیات تھیں لیکن ان کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ مطالعہ کے شوقین تھے۔ پارلیامنٹ ہاؤس کی لائبریری میں اگر کسی ایم پی کی سب سے زیادہ انٹری ہوگی تو وہ رام ولاس پاسوان ہی ہونگے۔ دوران گفتگو انھوں نے اشارے سے ملازمین کو چائے لانے کے لئے کہا۔ ہمارے بھائی جمشید عادل علیگ صاحب اچانک اٹھے اور ایک کونے میں رکھے فریج کھول کر معائینہ کرنے لگے۔ فریج سے انھوں نے مٹھائی کا ایک ڈبہ نکالا۔ میرے پاس لائے اور بولے بھائی مٹھائی کھایئے۔ مٹھائی کا ڈبہ رام ولاس پاسوان کی طرف بڑھاتے ہوئے انھوں نے نہایت بے تکلفی سے کہا کہ سر لیجئے ایک پیس۔ اب تک یہ بات میری سمجھ میں آچکی تھی کہ جمشید عادل علیگ اس گھر سے اور گھر کے سرو سامان سے خوب واقف ہیں۔ اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ رام ولاس پاسوان سے یہ بے تکلف ہیں۔ ان کے بھائی ایم پی رام چندر پاسوان کو تو جمشید عادل علیگ کوئی خاص توجہ بھی نہیں دے رہے تھے۔ ہم آدھے گھنٹے بیٹھے، مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ اٹھتے ہوئے رام ولاس پاسوان نے جمشید عادل علیگ سے کہا کہ کسی دن آیئے دونوں بھائی لنچ ساتھ میں کرتے ہیں۔ جمشید عادل نے میری طرف دیکھ کر کہا ”ہاں سر آتے ہیں کسی دن، بھائی کو بھی لائیں گے“ اس کے بعد ہم کئی بار رام ولاس پاسوان جی کے گھر 12 جن پتھ گئے۔ ہر سال رمضان میں ایک افطار پارٹی ہوتی۔ اس کے علاوہ بھی بہت ملاقاتیں ہوئیں۔ میں نے اس آدمی کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے دیکھا۔ ہمیشہ کسی کی پریشانی سنتے ہوئے اور اس کا حل تلاش کرتے ہوئے پایا۔
وہ اپنے علاقے اور اپنے لوگوں میں بے پناہ مقبول تھے۔ انھوں نے اپنے دلت بھائیوں بہنوں کی کچھ مدد کر پانے کی غرض سے سیاسی سمجھوتے بھی کئے۔ ہر بار وزارت کی ذمہ داری سمبھالی۔ لوگ ان کے منہ پر ہی انھیں موقعہ پرست کہتے اور وہ ہنس کر سن لیتے۔ یہ حوصلہ اب کس میں ہے مجھے نہیں معلوم۔ وہ صحافیوں سے اچھی دوستی رکھتے تھے، ان کے دکھ سکھ میں کام آتے تھے، اور حسب ضرورت صحافیوں سے کام بھی لیتے تھے۔ میڈیا کو سنبھالنا اور میڈیا کو بہتر ڈھنگ سے استعمال کرنے کا ہنر وہ جانتے تھے۔ مگر ہر کام پیار سے کرتے تھے۔ ان کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی وہ مصنوعی نہیں تھی۔ وہ اندر سے ایک اچھا انسان تھا۔آپ کو حق ہے کہ آپ ان کے سیکولر ہونے پر سوال قائم کیجئے لیکن اس شخص کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ آخری وقت تک سیکولر ہی تھا۔ سیاست میں مصلحت بھی کوئی چیز ہے۔ لیکن اب رام ولاس پاسوان اس دنیا سے چلے گئے۔ اب ان کی سیاست کا اور ان کی سیاسی کارکردگی کا لیکھا جوکھا پیش کیا جائے گا۔ پردیپ جی نے اطلاع
دی ہے کہ ان کی بایو گرافی مکمل ہو گئی ہے۔ کتاب چھپ کے آئے گی تو بہت سی باتوں کا علم ہوگا۔ بس اتنا کہ رام ولاس پاسوان ذرا مختلف تو تھے۔ اپنے چاہنے والوں کو اداس کر کے چلے گئے۔
(مضمون نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں).

Recommended