آہ! عنبر بہرائچی
منفرد لہجے کے شاعر کا سانحہء ارتحال
خراج عقیدت: ڈاکٹر شمس کمال انجم
”غزل آشرم“ کے باسی نے کل 7 مئی کو اتنے چپکے سے اپنی آخری سانسیں گن لیں کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ ”گمنام جزیروں کے تمکنت“ کا خالق اتنا گمنام ہوسکتا ہے میں نے کبھی سوچا نہ تھا۔ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ اور اپنے شعر وسخن کے مشک وعنبر سے گلشن ادب کو مہکانے والے البیلے شاعرکے ارتحال سے ادبی فضا میں اتنی خاموشی چھائی رہے گی اس کا مجھے بالکل اندازہ نہ تھا۔ شاعروں ادیبوں اورنقادوں بلکہ ایسے ویسوں کے بھی انتقال پر لرز جانے والے فیس بک کے پایوں میں کل جنبش تک نہ ہوئی۔ مجھے عنبر صاحب کے انتقال سے زیادہ تکلیف اردو والوں کی ان سے بے خبری پر ہوئی۔کسی صاحب نے فیس بک پر ان کے انتقال کی خبر کوبڑے ابہام سے پیش کیا۔ میں چشم تحیر بن کر تکتارہا۔ فیس بک کو الف سے بڑی یا تک اسکرول کرکے ایک ایک صفحے کو دیکھ ڈالا کہیں بھی ان پر کوئی نوحہ خواں نظر نہیں آیا۔کوئی سوگوار نہیں دکھا۔میں سوچنے لگا کیا عنبر صاحب معاصر شعری منظرنامے میں اس قدر مجہول الاسم اور عدیم الشہرت تھے کہ اکا دکا لوگوں کو کو چھوڑ کر کسی نے بھی ان کے انتقال کی خبر سے سروکار تک نہ رکھا۔ کسی نے ان کے لیے دعائے مغفرت بھی نہ کی۔ کسی نے انا للہ بھی نہیں پڑھا۔کسی نے نہ ان کے ساتھ اپنی تصویر چڑھائی۔ نہ کسی نے ان کے شعر وسخن پر کوئی بات کی۔ بقول عنبر ؎
قدروں کی شب ریزی پر حیرانی کیوں؟
ذہنوں میں اب کالے سورج پلتے ہیں
کثیف دھند کے پنچوں میں جھونپڑے ہیں ابھی
بڑی چھتوں پہ ہی سورج کے پر کھلے، اب کے
عنبر بہرائچی مجھے نہیں جانتے تھے۔ نہ میری ان سے خط وکتابت تھی اور مجھے اس کا افسوس بھی ہے کہ مجھے ان سے نیاز حاصل نہیں ہوسکا۔البتہ میں کم وبیش ڈھائی عشرے سے ان سے واقف تھا۔ ان کے شعروسخن کا معتقد اور فین تھا۔ یہ 1998 کی بات ہے میں دوحہ قطر میں تھا۔ میں نے باضابطہ شاعری شروع کی تھی۔ کہ مجھے عنبر صاحب کی ایک نعت ہاتھ لگی۔اس کے کچھ اشعار آپ بھی دیکھ لیجیے پڑھ لیجیے ؎
انوپم جوت کے پونم ضیائے مہر تابانی
پریت وریت کے سنگم مجسم حسن ایمانی
مدھر سندیش کے سرگم پیام لطف سبحانی
کنول کی چھاؤں میں کانٹے کھلے ہیں کامنی بن کر
اندھیرے نور کے ساون میں چمکے چاندنی بن کر
گھٹی آہیں لہک اٹھیں سہانی راگنی بن کر
سکھر من موہنی چھب منبع تنویر وزیبائی
مدھر امرت بھری بانی سرور عقل ودانائی
سلونی پریت کے مدھوبن چمن زار مسیحائی
نچھاور پائے انور پر روپہلی صبح کا آنچل
رخ پر نور ہے یا بارش انوار کی جل تھل
زسر تا پا بہار گلستان فکر عزوجل
اس نعت کو پڑھ کر میں چونک سا گیا تھا۔مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ یہ عنبر بہرائچی کی نعت ہے۔اس اسم معنبر نے میرے ذہن ودماغ کو خوشبوؤں سے بھر دیا تھا۔ میں اس نعت کو پڑھ کر سر دھن رہا تھا۔ واہ واہ کررہا تھا۔ داد سخن دے رہا تھا۔ اس نعت میں نعت نگاری کی روایتی شاہراہوں سے ہٹ کر فکر وخیال کو مجلی کیاگیا تھا۔ہندی اور اردولفظیات سے آراستہ اس نعت کا ہر مصرع نعت نگر کے کسی شیش محل کی ایک پرکشش تصویر پیش کررہا تھا جس کی چھپ دیدنی تھی۔ جس کا ہر مصرع ایسا پرکشش تھا جو قاری کو اپنا اسیر بنالیتا ہے۔اس کے بعد میں عنبر کو پڑھتا رہا۔ خاص طور سے افتحار امام صدیقی انہیں ماہنامہ شاعر میں بہت اہتمام سے اور بلا ناغہ شائع کرتے تھے۔ زیادہ تر میں نے انہیں شاعر ہی میں پڑھا۔
عنبر بہرائچی غزلیں بھی کہتے تھے اور نظمیں بھی۔ فضیل جعفری نے انہیں دیہی شاعر کے لقب سے ملقب کیا ہے۔ غزلوں میں بھی وہ بہت توانا لہجے کے مالک تھے اور نظموں میں وہ بہت منفرد اور اچھوتاآہنگ رکھتے تھے۔ان کی غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
پھولوں والے ٹاپو تو غرقاب ہوئے
آگ اگلتے نئے جزیرے ابھرے ہیں
اس کے بوسیدہ کپڑوں پر مت جاؤ
مست قلندر کی جھولی میں ہیرے ہیں
کچی مٹی کی خوشبو جب اینٹوں کے جنگل سے گزری
گلدانوں میں دھڑکن جاگی، لانوں کی رنگت بدلی ہے
شب کے سناٹے میں طائر چیخ پڑے ہیں
کسی شجر کی شاخ سے پتہ ٹوٹہ ہوگا
باہر سارے میداں جیت چکا تھا وہ
گھر لوٹا تو پل بھر میں ہی ٹوٹا تھا
یاروں کی نظر ہی میں نہ تھے پنکھ ہمارے
خود اپنی اڑانوں کو کترنا تھا ہمیں
رات پیڑوں کے تنوں سے تیرگی لپٹی رہی
چاند، پتوں کو روپہلی چاندنی دیتا رہا
ہوپائے نہیں سودے ہم جیسے فقیروں سے
چاندی کے جزیروں کو ٹھکراکے چلے آئے
کشکول ہے سونے کا تو تسبیح گہر کی
پھر کیا؟ رخ انور پہ رعونت بھی سجاؤ
دیو قامت پیڑ آندھی میں زمیں پر گڑ پڑے
دوب کے بازو ہر اک جھونکے سے ٹکراتے رہے
ان کی غزلیں تو اپیل کرتی ہی ہیں ان کی نظموں میں بلا کی کشش ہے۔ بالکل منفرد اور انوکھا اسلوب۔میں سمجھتا ہوں کہ وہ 80 کے بعد کے شاعروں میں اخترالایمان وغیرہ کے قد کے نظم گو تھے اور معاصر نظم نگاروں میں سب سے آگے۔ان کی ایک نظم کے چند ملاحظہ فرمائیں ؎
امنگ کے حصار میں ہری بھری وہ کھیتیاں
ہوا کی کروٹوں سے ریگزار میں بدل گئیں
ندی کے پانیوں میں تیرگی نے بال دھولیے
تو سوہنی کی انکھڑیوں سے کہکشاں بکھر گئی (نظم ہوک سی اٹھی)
ایک اور نظم دیکھیں ؎
جھیل کے چاروں طرف بانس کا جنگل جھوما
شوخ پروائی ہر اک سرخ کنول پر تھرکی
مور کی گونج پہ سرخاب کی ڈاریں چونکی
طفل سورج کے وہ السائے ہوئے نین کھلے
نیل گوں پانی پہ رقصاں ہیں طلائی کرنیں
مچھلیاں،سبز سواروں میں اچھلتی جائیں
جھنڈ ہرنوں کے چلے آئے ہیں بے خوف وخطر
تشنگی اپنی مٹانے کو بہ ہنگام سحر
چَیت کی مدھ بھری گلریز ہوواؤں کے تلے (گاؤں کی جھیل)
ان کی ایک اور نعتیہ نظم ملاحظہ کرلیں ؎
عناصر سے پرے خوش رم تجلی کے حسیں پرچم
حریم قدس میں سجدہ کناں ہیں مرسل اعظم
فصاحت جن کے حرف حق کے ہر مفہوم کی محرم
عیاں سر نہاں ان پر بفییض خالق عالم
شعور وآگہی کے گل بداماں یہ حسیں موسم
جہان بے جہت میں ہر قدم پرنور کی شبنم
تعالی اللہ وہ خوش لہجگی وہ مدھ بھری سرگم
فرشتوں کے لبوں پر حمد باری کے سمن ہردم
اُدھر تو مہرباں ہے چشم وحدت کی شفق پیہم
ادھر ہے عبدہ کی عجز میں ڈوبی جبین خم
سکوت شب میں عنبر پاش اشکوں کی گہر باری
حسیں وارفتگی میں ہے زباں پر یہ بچشم نم
خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسرو
محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
یہ لہجہ تھا عنبر بہرائچی کا جو کل بڑی خاموشی سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ زندگی بھر تڑک بھڑک اور سستی شہرت سے ہمیشہ دور رہے۔ شاید ان کا پروفیشنل منصب اس کے پس پردہ سبب رہا ہو۔ مگر وہ خموشی سے بس اپنی فکر کو اجالتے رہے اور ایسے اسلوب میں جو فی زمانہ جاری وساری شاعری سے بالکل مختلف تھا۔ انہوں نے بقول فضیل جعفری ”موضوعات اور اسلوب کے اعتبار سے اپنی شاعری پر اپنی انفرادیت کی مہر ثبت کردی تھی“۔ بقول حماد انجم ”عنبرؔ صاحب اپنے خاص پیٹرن اور مخصوص ومنفرد لب ولہجے میں بڑے پیارے لگتے ہیں۔ اگران کی تخلیقات پر ان کا نام نہ بھی لکھاجائے تو ان کامخصوص اور وحدہ لاشریک لب ولہجہ ان کے نام کی غمازی کردے گا۔ یہ ان کا بہت منفرد وصف ہے“۔
وہ جس اسلوب میں کہتے تھے اسے انہوں نے اپنے نام سے پیٹنٹ کرالیا تھا۔ان کو جب بھی پڑھا جہاں بھی پڑھا خاص طور سے نظموں میں وہ اسی اسلوب کے آس پاس نظر آتے تھے۔ان کے کلام پر ان کے نام کا اسٹیکر نہ بھی لگا ہو تو بھی وہ چیخ چیخ کر کہتا تھا کہ یہ عنبر بہرائچی کا کلام ہے۔اردو شاعری میں خاص طور سے نظم کے میدان میں وہ اخترا الایمان کے صف کے شاعر تھے۔ معاصر منظر نامے کے شاعروں سے کہیں آگے اور بہت منفرد۔
لطف کی بات تو یہ بھی ہے کہ وہ جس قدر شاعری پر دسترس رکھتے تھے اسی قدر شیریں، پرلطف اور شاندار نثر بھی لکھنے پر قدرت رکھتے تھے۔ سنسکرت شعریات سے انہیں عشق تھا۔ سنسکرت بوطیقا اور سنسکرت شاعری نامی کتابیں اس کا بین ثبوت ہیں۔ آنند وردھن اور ان کی شعریات، خالی سیپوں کا اضطراب، دوب(گھاس) روپ انوپ، گمنام جزیروں کی تمکن، ملنگ ملہار، مہابھنِشکرمن وغیرہ کتابیں ان کے ادبی وشعری جاہ وجلال کے ساتھ ان کے عالمانہ قد وقامت کی بھی گواہی دیتی ہیں۔
عنبر بہرائچی ۷ مئی 1949ء کوضلع بہرائچ میں پیدا ہوئے اور عجیب اتفاق ہے کہ7 مئی ان کی تاریخ وفات بھی ٹھہری۔جغرافیہ میں ایم اے تھے۔ سول سروسز کے امتحا ن میں کامیاب ہوئے اور اترپردیش سرکار میں اعلی عہدوں پر فائز رہے۔
یہ مضمون میں نے بس یونہی انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے لکھ دیا ہے۔ یہ مضمون نہ تو ان کے احساس واظہار کا تحقیقی جائزہ ہے نہ ہی اسے میں نے ان کی تعیین قدر کے لیے لکھا ہے۔ کل ان کے انتقال سے جو دلی رنج ہوا اور اردو کے میخانے میں جو خموشی چھائی رہی اس کی روشنی میں میں نے یہ چند سطریں لکھ دی ہیں امید ہے اس مضمون سے ان کی شاعری پر لکھنے اور انہیں اجالنے کا رجحان پیدا ہوگا۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے۔آمین
٭٭٭٭٭٭