Urdu News

شکشک پرو مہم کے تحت ‘‘ہندوستانی زبانوں کا فروغ’’ کے موضوع پر ویبینار کا انعقاد

شکشک پرو مہم کے تحت ‘‘ہندوستانی زبانوں کا فروغ’’ کے موضوع پر ویبینار کا انعقاد

<div class="pull-right">
<div class="print-icons"></div>
</div>
<div class="innner-page-main-about-us-content-right-part">
<div class="text-center">
<h2>شکشک پرو مہم کے تحت ‘‘ہندوستانی زبانوں کا فروغ’’ کے موضوع پر ویبینار کا انعقاد</h2>
</div>
<p dir="RTL">شکشا پرو مہم کے تحت سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لنگویج (سی آئی آئی ایل) نے ‘ہندوستانی زبانوں کا فروغ’ کے موضوع پر 16 ستمبر کو ایک ویبینار کا انعقاد کیا۔ وزارت تعلیم نے شکشا پرو کے تحت نئی تعلیمی پالیسی (این ای پی) کی اہم خصوصیات کو خصوصی طور سے اجاگر کرنے کیلئے ویبیناروں کی ایک سیریز کا اہتمام کیا ہے۔</p>
<p dir="RTL">زبان تعلیمی کا پالیسی کا ایک اہم جزو ہے اور سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لنگویج (سی آئی آئی ایل) تمام ہندوستانی زبانوں کے فروغ کیلئے کام کرتا ہے۔ وزارت کے پروگراموں کا حصہ ہونے کے طور پر سی آئی آئی ایل نے نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے ضمن میں ہندوستانی زبانوں کی ترقی پر مرکوز اس ویبینار کا انعقاد کیا تھا۔ اس ویبینار کا مقصد نئی تعلیمی پالیسی کے تحت زبان کی اہمیت کو خصوصی طور سے اجاگر کرنا تھا۔</p>
<p dir="RTL">سی آئی آئی ایل کے ڈائرکٹر پروفیسر ڈی جی راؤ کی صدارت میں منعقدہ اس ویبینار میں چار معروف دانشوروں نے نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے موضوع پر اپنے خیالات ظاہر کیے۔ معروف مقررین میں پروفیسر اودے نارائن سنگھ اور پروفیسر اودھیس کمار مشرا (دونوں سی آئی آئی ایل کے سابق ڈائرکٹر)، پدم شری پروفیسر انویتا ابّی اور معروف دراوڑی لسانیات کے ماہر پروفیسر جی اوما مہیشورا راؤ  شامل تھےاور اس ویبینار کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر نارائن کمار چودھری تھے۔</p>
<p dir="RTL">ان کی گفتگو کے مرکزی موضوعات درج ذیل ہیں:</p>

<ol>
<li dir="RTL">نئی تعلیمی پالیسی 2020 میں ہندوستانی زبانوں کے فروغ کیلئے مواقع۔</li>
<li dir="RTL">زبان کی ماحولیات اور مقامی ثقافت کا تحفظ۔</li>
<li dir="RTL">مادری زبانوں اور ذریعہ تعلیم کو پائیدار بنانا۔</li>
<li dir="RTL">ہندوستانی زبانوں کیلئے ٹیکنالوجی کی ترقی۔</li>
</ol>
<p dir="RTL">پروفیسر  یو این سنگھ نے اس نقطے پر زور دیا کہ کثیر لسانیت ہندوستان کیلئے بوجھ نہیں رہی ہے اور یہاں ہر ایک اہم زبان کسی دوسری زبان کیلئے رابطے کا کام کرتی ہے۔ انہوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ سبھی زبانوں کی ترقی کیلئے ایک جیسی حکمت عملی نہیں ہوسکتی کیوں کہ ایک جگہ پر جہاں گھر پر بولی جانے والی زبان کام کریگی وہیں دوسری جگہ مادری زبان اور تیسری جگہ مقامی زبان کام کریگی۔ انہوں نے کہا کہ اس سمت میں کی جانے والی کوششوں اور اقدامات نوعیت کے اعتبار سے جامع ہونے کے ساتھ ساتھ ایسی ہونی چاہئے جس میں معاشرے کی شراکت داری ہو۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وسائل کا استعمال مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے کیلئے نصابی کتابیں تیار کرنے میں کیا جانا چاہئے اور کہا کہ اس میں ماہرین لسانیات بہت اہم کردار نبھا سکتے ہیں۔ انہوں نے سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لنگویج کے اس سمت میں کی گئی کوششوں کی ستائش کی اور بتایا کہ ادارہ اور اس کی این ٹی ایم اور این ٹی ایس جیسی اسکیموں اور علاقائی زبان کے مراکز کو نئی تعلیمی پالیسی کے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے کیا کیا کرنا چاہئے۔</p>
<p dir="RTL">پروفیسر اودھیش کمار مشرا نے اس بات کو اجاگر کیا کہ حقیقت میں ہر زبان مادری زبان ہوتی ہے۔ حالانکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ہر مادری زبان کو زبان کا درجہ حاصل نہیں ہو، ہوسکتا ہے کہ کسی زبان کی بہت سی شکلیں ہوں لیکن اس کے کسی ایک شکل کو ہی زبان کا درجہ ملے۔ انہوں نے زبانوں اور مادری زبانوں کے بارے میں گفتگو خصوصی طور پر اسکولی تعلیم کے ضمن میں کی۔ انہوں نے ایسے اساتذہ تیار کرنے کی ضرورت بتائی جو مادری زبان میں تعلیم دے سکے اور اس بات پر زور دیا کہ وزارت تعلیم کےتحت کام کرنے والے زبان کے اداروں کو نئی تعلیمی پالیسی 2020 کے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے آپسی اشتراک سے کام کرنا چاہئے۔ سروے کے اعداد وشمار کی بنیاد پر پروفیسر مشرا نے اسکولوں کے موجودہ حالات کا خاکہ کھینچا اور اسکولوں میں لاگو سہ لسانی فامولے کو جاری رکھنے کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ این ای پی میں ابھی تک نصاب سے باہر رہی مادری زبان کو اس میں شامل کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ  خصوصی طور سے درس وتدریس کے وسائل کو ترقی دینے کے مقصد سے لنگویج اداروں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو درس وتدریس کے وسائل تیار کرنے کیلئے اعلیٰ پیمانے پر اشتراک کرنا چاہئے۔</p>
<p dir="RTL">پروفیسر انویتا ابّی نے کہا کہ ہر زبان اپنے آپ میں انوکھی ہے اور وہ اپنے ساتھ ایک برادری کی آگاہی اور ادراک کو سمیٹے رہتی ہے اور اس طرح کی بہت ساری زبانیں ہندوستان میں صدیوں سے بچی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے رپورٹ کے حوالے سے کہا کہ ہر 15 دن پر ایک زبان معدوم ہوجاتی ہے اور کسی ایک زبان یا مادری زبان کو کھونے کا مطلب ہے اس کے علم کے ذخیرے سے اور اس زبان کے ساتھ آنے والے نادر طور طریقوں سے محروم ہوجانا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ہندوستانی زبانوں کا ایک بنیادی گرامر تیار کیاجاسکتا ہے اور ہندوستانی رسم الخط کے ایک قومی آیوگ کا قیام کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ زبانوں بالخصوص مادری زبانوں کی درس وتدریس کو ابتدائی سطح سے ہی شروع کیے جانے کی ضرورت ہے کیوں کہ وہ حالات یا مقامی علوم کو سکھانے اور سمجھانے میں آسان ہے۔ ہندی کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں اسے کسی پر تھوپا نہیں گیا ہے بلکہ اس کی درس وتدریس کا مشورہ دیا گیا ہے۔ ہندی کی قبولیت کا الگ ہی سطح ہے، یہ ملک بھر میں رابطے کو رفتار دیتی ہے۔ ہندی کے ادب کا نہیں بلکہ اس کی کسی نہ کسی شکل کو ضرور پڑھایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی ہندوستان میں اب کوئی غیرملکی زبان نہیں ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ این ای پی2020 کے لاگو کیے جانے کے بعد بننے والے نئے تعلیمی نظام کو سہل آسان بنانے کیلئے تعاملی کثیر لثانی لغات تیار کیے جاسکتے ہیں۔</p>
<p dir="RTL">پروفیسر جی یو راؤ نے ہندوستان میں لنگویج ٹیکنالوجی کے مجموعی منظر نامے کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے ہندوستانی زبانوں کی ویب موجودگی میں بتدریج اضافے کو اجاگر کیا اوراندازہ لگایا کہ جنہیں ہم چھوٹی چھوٹی زبانیں مانتے ہیں وہ اپنے سے بڑی تسلیم کی جانے والی زبانوں سے آگے نکل جائیں گی۔ انہوں نے ہندوستان کے مختلف اداروں اور یونیورسٹیوں کے ذریعے ہندوستانی زبانوں کے سلسلے میں کیے گئے کاموں کا تذکرہ کیا اور ان شعبوں میں مزید شراکت داری اور زیادہ سرمایہ کاری کیے جانے کی ترغیب دی۔ انہوں نے ہندوستانی زبانوں کے ایک ڈیجیٹل کورپورا کی ترقی کی کوشش کیے جانے کے بارے میں بات کی اور ہندوستانی زبانوں میں موبائل تکنیک تیار کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے ہندوستانی زبانوں میں اور ان کے لئے تکنیک تیار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔</p>

</div>.

Recommended