فکر و نظر

غالب انسٹی ٹیوٹ میں ’شام شہر یاراں‘ کے تحت ’نئے نقاد کے نام خطوط‘ پر مذاکرے کا انعقاد

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ’شام شہر یاراں‘ کے عنوان کے پروفیسر ناصر عباس نیر کی کتاب’نئے نقاد کے نام خطوط‘ پر مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مذاکرے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی نے فرمائی۔

اپنے صدراتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ ناصر عباس نیر ہمارے عہد کے ممتاز صاحب قلم ہیں۔ انھوں نے تنقید کی دنیا میں اپنے گہرے مطالعے اور غور فکر سے جو اعتبار حاصل کیا ہے وہ کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ میں نے ان کی تحریروں کو اس سے قبل بھی پڑھا ہے لیکن اس کتاب کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔

اس کتاب میں کل 32خطوط ہیں جن کا مخاطَب ایک ایسا نقاد فرض کیا گیا ہے جو مختلف قسم کے سوالوں کے نشانے پر ہے۔ یہ کتاب تنقید کے بنیادی سوالات کو ان کی اصل حقیقت میں پیش کرتی ہے اور ان سوالات کے تشفی بخش جوابات بھی فراہم کرتی ہے۔

 مجھے خوشی ہے کہ آج کے مذاکرے میں جن لوگوں کو مدعو کیا گیا ان میں زیادہ تر ادبی دنیا میں اپنی شخصیت قائم کر چکے ہیں اور ان کے الفاظ دیانت داری سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ اس مذاکرے میں نئی نسل کو بھی شامل کیا گیا ہے اور ان کی گفتگو بھی کتاب کے اہم پہلووں کو کھولتی ہے۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ ’شام شہر یاراں‘ کا شمار غالب انسٹی ٹیوٹ کی اہم سرگرمیوں میںہوتا ہے۔ اس تقریب کے تحت اردو کی کسی اہم تصنیف پر چند صاحبانِ رائے جمع ہو کر اس کی افادیت پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ بہت مقبول ہوا ۔

 اس سے مصنفین کی حوصلہ افزائی کے ساتھ کتابوں کی تشہیر بھی ہوئی اور اس کے افادی پہلوؤں سے افراد واقف بھی ہو گئے۔ ناصر عباس نیر صاحب ہمارے عہد کے سب سے اہم اور مقبول مصنف ہیں ان کی تحریریں ادبی دنیا میں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ آپ نے جس موضوع پر قلم اٹھایا اس میں علمی شان پیدا کر دی۔ان کی ہر کتاب اہم ہے لیکن ان کی اب تک کی کتابوں میں سب سے اہم ہے۔

یہ کتاب اپنی تکنیک ہی نہیں مواد کے لحاظ سے بھی ہر پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس کتاب کو سنگ میل پبلی کیشن والوں نے لاہور سے شائع کیا ہے میری خواہش ہے کہ ہندستان میں بھی اس کی اشاعت ہو، تاکہ استفادہ عام ہو سکے۔

اس مذکرے میں پروفیسر شافع قدوائی، پروفیسر عاصم صدیقی، پروفیسر خالد جاوید، ڈاکٹر معراج رعنا، پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر معیدالرحمٰن، ڈاکٹر عبدالسمیع، ڈاکٹر محضر رضا اور ڈاکٹر نوشاد منظر نے اپنے تاثرات پیش کیے اور جناب فیضان الحق نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago