فکر و نظر

کارل لینڈ اسٹینر کی یاد میں کیوں منایا جاتا ہے خون کے عطیہ کا عالمی دن؟

خون دینے والوں کے لیے اس تاریخ کی اہمیت خاص ہے۔ لہٰذا اگر آپ نے اپنی زندگی میں خون کا عطیہ نہیں کیا تو خون کے عطیہ کے لیے اس سے بہتر موقع نہیں ہو سکتا۔ ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے 14 جون کو ہی منایا جاتا ہے۔ دراصل 14 جون 1868 کو کارل لینڈ اسٹینر پیدا ہوا تھا۔ کارل ایک مشہور امیونولوجسٹ تھا۔ اس نے انسانوں میں خون کے مختلف گروپس دریافت کیے۔ کارل کی اس دریافت کے بعد ہی ایک سے دوسرے شخص کو خون کی منتقلی ممکن ہوئی۔

درحقیقت انسانوں میں ایک دوسرے سے خون لینے یا دینے کی کوششیں صدیوں سے جاری تھیں۔ 1628 میں طبیب ولیم ہاروے نے ایک اہم دریافت کی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے جسم میں خون ایک بند نظام میں گردش کرتا ہے یعنی رگوں کا ایک جال ہے جس میں خون بہتا رہتا ہے۔

نومبر 1667 میں انگلینڈ کے رچرڈ لوئر نے بھیڑ کے بچے کا خون انسانوں میں منتقل کیا۔ اس سے قبل وہ کتوں پر بھی تجربات کر چکے تھے۔ جین بپٹسٹ ڈینس بھی فرانس میں اس سمت میں تحقیق کر رہے تھے۔ انہوں نے ایک بھیڑ کے بچے کا خون انسانوں میں منتقل کیا، لیکن جس شخص کو خون دیا گیا وہ مر گیا۔

 اس کے بعد جانوروں سے انسانوں میں خون کی منتقلی پر پابندی لگا دی گئی۔1875میں جرمن ماہر طبیعات لیونارڈ لینڈاؤ نے ایک تجربے کے ذریعے یہ ظاہر کیا کہ مختلف نسلوں کے لوگوں میں خون کی منتقلی سے خون میں موجود سرخ خون کے خلیات میں تھکا جمنے لگتا ہے۔ اس سے لینارڈ نے ثابت کیا کہ انسانوں سے جانوروں میں یا جانوروں سے انسانوں میں خون کی منتقلی کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یعنی اب سائنسدان جان چکے تھے کہ خون کی منتقلی صرف انسانوں سے انسانوں میں کی جا سکتی ہے۔

خون کی منتقلی کے حوالے سے سب سے بڑی دریافت کارل لینڈ اسٹینر نے 1901 میں کی تھی۔ کارل نے ویانا یونیورسٹی سے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی اور کئی سال امیونولوجی کی تحقیق میں گزارے۔ انہوں نے خون میں موجود اینٹی جینز اور اینٹی باڈیز دریافت کیں اور بتایا کہ اگر مختلف گروپوں کا خون آپس میں ملایا جائے تو اس سے اینٹی جینز اور اینٹی باڈیز خون میں تھکا جمنے لگتاہے۔ اس بنیاد پر اس نے چار قسم کے خون کے گروپ A، B، O اور AB بنائے۔ کارل نے کہا کہ ہمارے جسم کا مدافعتی نظام خون میں موجود اینٹیجن کو پہچاننے کے بعد ہی ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

اگر A بلڈ گروپ والے شخص کو B گروپ کا خون دیا جائے تو ہمارا جسم ان اینٹیجنز کو وائرس کی طرح سمجھتا ہے اور اینٹی باڈیز بنانا شروع کر دیتا ہے۔ کارل کی اس دریافت پر انہیں 1930 میں طب کا نوبل انعام دیا گیا۔ کارل کی اس دریافت کی بنیاد پر دنیا بھر میں خون کی منتقلی کی جاتی ہے۔

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago