Urdu News

پروین شاکر : اردو کی منفرد شاعرہ

پروین شاکر : اردو کی منفرد شاعرہ

<h3 style="text-align: center;">پروین شاکر : اردو کی منفرد شاعرہ</h3>
<p style="text-align: right;"><a href="https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%BE%D8%B1%D9%88%DB%8C%D9%86_%D8%B4%D8%A7%DA%A9%D8%B1">پروین شاکر</a> کو <a href="https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88">اردو</a> کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوپاتی ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">24 نومبر، 1952 کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔</p>
<p style="text-align: right;">انہوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔</p>
<p style="text-align: right;">سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں اور 1986میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔ بی۔ آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔1990 میں ٹرینٹی کالج جو امریکا سے تعلق رکھتا تھا سے تعلیم حاصل کی اور 1991 میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جس سے بعد میں طلاق لے لی۔</p>
<p style="text-align: right;">26 دسمبر 1994کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ لواحقین میں ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پروین شاکر صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کی کار ایک ٹریفک سگنل پر موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔</p>
<p style="text-align: right;">اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہوئیں، انہیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ پروین شاکر26 دسمبر1994 کو اسلام آباد میں وفات پاگئیں اور اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں ۔ ان کی لوح مزار پر انہی کے یہ اشعار کندہ ہیں:</p>
<p style="text-align: right;">یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے</p>
<p style="text-align: right;">زخم ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے</p>
<p style="text-align: right;">شہر سخن سے روح کو وہ آشنائی دے</p>
<p style="text-align: right;">آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستا سجھائی دے</p>
<p style="text-align: right;">ان کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ان کی شعری تخلیقات درج ذیل ہیں:</p>

<ol style="text-align: right;">
<li>خوشبو (1976)</li>
<li>صد برگ (1980)</li>
<li>خود کلامی (1990)</li>
<li>انکار (1990)</li>
<li>ماہ تمام (1994)</li>
</ol>
<p style="text-align: right;"><a href="https://en.wikipedia.org/wiki/Parveen_Shakir">پروین شاکر</a> کی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہا رہے جو درد کائنات بن جاتا ہے اسی لیے انہیں دور جدید کی شاعرات میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ حالاں کہ وہ یہ بھی اعتراف کرتی ہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں میں کشور ناہید، پروین فنا سید، فہمیدہ ریاض کو پسند کرتی ہیں، لیکن ان کے یہاں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی ہم عصر دوسری شاعرات کے یہاں نظر نہیں آتی۔ اُن کی شاعری میں قوس قزح کے ساتوں رنگ نظر آتے ہیں۔</p>
<p style="text-align: right;">اُن کے پہلے مجموعے خوشبو میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہار ہے اور اس وقت پروین شاکر اسی منزل میں تھیں۔ زندگی کے سنگلاخ راستوں کا احساس تو بعد میں ہوا جس کا اظہار ان کی بعد کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے۔ ماں کے جذبات شوہر سے ناچاقی اور علیحدگی، ورکنگ وومن کے مسائل ان سبھی کو انہوں نے بہت خوب صورتی سے قلم بند کیا ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">نمونۂ کلام:</p>
<p style="text-align: right;">میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی</p>
<p style="text-align: right;">وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا</p>
<p style="text-align: right;">…………………………………………………………</p>
<p style="text-align: right;">کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے</p>
<p style="text-align: right;">بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی</p>
<p style="text-align: right;">…………………………………………………….</p>
<p style="text-align: right;">چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا</p>
<p style="text-align: right;">عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا</p>
<p style="text-align: right;">……………………………………………………</p>
<p style="text-align: right;">اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں</p>
<p style="text-align: right;">اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی</p>.

Recommended