Urdu News

نام نہاد محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان قوم کے لیے خوش قسمتی یا؟

آفتاب سکندر

پاکستانی عوام کا سب سے بڑا المیہ کیا رہا ہے؟ ہماری عوام، قوم کی سب سے بڑی بدقسمتی، بد نصیبی یہی ہے کہ ہم اُن تمام چیزوں پر یقین ثبت کر لیتے ہیں جو ہمارے اعتقاد کے زمرے میں آتی ہیں یا پھر  ہمارا ذہن پہلے سے تیار بیٹھا ہوتا ہے ان چیزوں کو قبولیت کا شرف بخشنے کے لیے۔

ایسی ہی کوتاہی بلکہ کوتاہیاں ہم سائنس کی تحقیق و جستجو، تعلیم و تعلم کے سلسلے میں کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو سائنسی قد آور شخصیات کے بُت کھڑے کیے جاتے ہیں ان کی حقیقت تو کب کی فاش ہوچکی ہے۔چاہے وہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند ہو یا نام نہاد محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہوں۔ حیرت میں مبتلا کردینے والی بات  یہ ہے کہ ان عظیم سائنسدانوں کو حرحرکیات کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے۔

کیونکہ حرحرکیات کے دوسرے قانون کے متعلق جانکاری تو حرحرکیات کے سطحی طالب علموں کو حاصل ہے۔ اس کی خلاف ورزی تو کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔

تو ہم اس بات سے یہ اندازہ تو لگا سکتے ہیں کہ جناب عزت مآب، فرزندِ پاکستان، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو حرحرکیات کے دوسرے قانون کے متعلق ذرا برابر بھی جانکاری نہیں ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ وہ اُلو بنا کر چلتا بنا۔مگر حیف اور گریہ اس بات کا ہے کہ آج بھی قوم کے باشعور افراد (جن کا شعور سائنس کی طرف بالکل بھی مائل نہیں ہے) کے ہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان اسی طرح محسنِ پاکستان ہیں۔

نام نہاد محسن پاکستان ڈاکٹر عند القدیر خان
نام نہاد محسن پاکستان ڈاکٹر عند القدیر خان

سرطان جیسی مہلک بیماری موصوف (محسنِ پاکستان) کے مطابق بالکل ایک معمولی سی بیماریوں میں سے ایک ہے اور ایک وٹامن 19 کی گولی اس کا اثر زائل کرسکتی ہے۔ اب حد تو یہ ہے کہ اس پر بھی ہماری قوم سپوتانِ علم و فن، عزیزانِ من خامشی کے ساتھ قدیر خان کے پیچھے پیچھے چلے جارہے ہیں۔ کیا آپ لوگ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے اصل محرکات کیا ہیں؟ اس کے پیچھے کیا اسباب ہیں؟

ہم حقیقت سے دور اس لیے بھاگتے ہیں کیونکہ یہ حضراتِ ذی شعور اور ذی وقار ہماری نصابی کتب ہوں یا میڈیا اُن سب میں بطورِ خاص ہمارے اذہان و قلوب میں بطورِ ہیرو ثبت کردیئے جاتے ہیں اور یوں ہم ان کی جہالت کو نظر انداز کیے پھرتے ہیں۔صرف اس بناء پر کہ یہ جو بت بن چکا ہے۔یہ نہیں توڑنا چاہے جو ہوجائے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ محسنِ پاکستان صاحب کا ایک کالم اخبار میں چھپا تھا جس میں جنابِ من نے شاہ احمد رضا خان بریلوی کے متعلق لکھا تھا، جس میں عبدالقدیر خان نے سائنس کے بہت سے علوم فلکیات، طبعیات، ارضیات، ریاضیات وغیرہ کے متعلق اُن کے علم کا قوی ہونا قرار دیا تھا اور ساتھ ہی اس میں بہت کچھ لکھا تھا کہ جیسے کہ ان کی مشہورِ زمانہ کتاب’’فوزِ مبین در ردِ حرکتِ زمین‘‘نامی تصنیف کے لیے تعریفی کلمات لکھے تھے،حالانکہ اس کتاب میں دیے گئے شاہ احمد رضا خان بریلوی کے 105 دلائل ہیں جو کہ حرکتِ زمین کے خلاف ہیں اور زمین کے ساکن ہونے پر قوی ہیں۔ کیا یہ بات کسی بھی تعلیم یافتہ شخص کے لیے قابلِ قبول ہے کہ وہ ایسے شخص کو طبعیات کا سائنسدان قبول کرلیں، جس کو اتنی بھی سمجھ بوجھ نہیں، جن کے فلکیات کے علم پر عبدالقدیر نے گُن گائے ہیں۔ وہ تو زمین کو ساکن  مانتے ہیں ، یہ محسنِ پاکستان آج بھی حیات ہیں اگر اُن کو مناسب لگے تو وہ وضاحت دیں کہ رات اور دن کیسے ہوتے ہیں؟

جوہری طبعیات کے باپ کے نام کے طور پر جن صاحبِ شخصیت کو ہماری قوم کو جانتی ہے وہ تو ہمیں زمین کی حرکت پر بھی معترض نظر آتے ہیں۔ پھر تو ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم ان سے دن رات کے ساتھ ساتھ زمین کے محوری گردش کے متعلق آگہی لیں۔

بھارت میں بریلوی فرقہ کے جید ترین عالم علامہ فاروق رضوی صاحب نے علی الاعلان دعویٰ کیا ایک تقریر کے دوران زبردست جوشیلہ انداز اپناتے ہوئے کہ’’شاہ احمد رضا خان بریلوی کی تصنیف’’ فوزِ مبین در ردِ حرکتِ زمین‘‘ کی تائید میں بہت بڑے معتبر سائنس دان وائن برگ نے اپنی تصنیفFirst three minutes of the Universe”میں شاہ احمد رضا خان بریلوی کے موقف کی تائید کی ہے۔ چونکہ طبعیات سے وابستہ ہونے کی وجہ سے میں نے یہ کتاب پڑھ رکھی تھی اس لیے میں حلفاً یہ بات کہنے کے لیے تیار ہوں کہ اُس کتاب میں ایسا کچھ درج نہیں ہے۔

ہمارے ہاں زمین کو ہموار کہنے والوں کا ایک طبقہ موجود ہے۔جامعہ علامہ اقبال اوپن کے شعبہ بنیادی سائنس سے وابستہ پروفیسر سید ابرار حسین صاحب نے کہیں لکھ دیا کہ کوئی سائنس دان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ پرنیکس کا نظریہ حرکتِ زمین سے متعلق ثابت ہو چکا ہے۔

اب حیرانی یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی حیثیت کیا ہے؟

کس حیثیت سے وہ سائنسی نظریہ کا رد کررہے ہیں؟

ان کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ سائنسی نظریہ کا ر کن بنیادوں پر کیا جاتا ہے؟

2018عیسوی کو جامعہ کراچی میں بھی ایسا ہی ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں زمین کے ہموار ہونے سے متعلق کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اب آپ اسی سے ہی اندازہ کرلیں کہ طبعیات کے شعبہ کی کیا حالت ہوگی؟

ہم سائنس سے وابستگی کی بنا پر’’ سائنس کی دنیا ،جدید سائنس کے تصورات اور جستجو ‘‘جیسے مستند فورمز پر آواز پھیلا رہے ہیں کہ زمین ساکن نہیں ہے بلکہ محوِ حرکت ہے۔ مگر پھر بھی اس حقیقت سے ناواقف لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

کیا ہم محسنِ پاکستان کو اسی طبقہ کا حمایتی قرار دیں جو کہ یقیناً دینا چاہیے کیونکہ جناب تو قصیدہ گوئی میں کالم قلم بند کرچکے ہیں۔جس طبقہ کے ہاں یہ محسنِ پاکستان ہیں اور ڈاکٹر عبدالکلام کے شریک ثانی ہیں طبعیات کے علم میں، تو میری گزارش صرف اتنی سی ہے کہ ان کی خدمات لیں اور ان سے دلائل حاصل کریں زمین کے ساکن ہونے کے متعلق تاکہ وہ دوسرا احسان بھی کرتے ہوئے جائیں قوم پر۔

Recommended