Urdu News

کس کے نام پر ہے دلی کا مشہور کناٹ پلیس

کتاب کے مصنف مشہور و معروف اخبار نویس وویک شکلا ہیں۔ اردو ترجمہ ڈاکٹر قدسیہ نصیر نے کیا ہے۔

مشہور کناٹ پلیس

کس کے نام پر ہے دلی کا مشہور کناٹ پلیس
کناٹ پلیس کا نام کس شخص کے نام پر رکھا گیا؟ یہ سوال بار بار پوچھا جاتا ہے۔دراصل پرنس آرتھر ڈیوک آف کناٹ کا بادشاہ جارج پنجم سے قریبی رشتہ تھا۔ اگر انگریزی رشتے کے حساب سے سمجھایا جائے تو وہ بادشاہ جارج پنجم کے انکل تھے۔ بادشاہ جارج پنجم نے تیسرے دہلی دربار میں اعلان کیا تھا کہ دہلی بھارت کی نئی سلطنت ہوگی۔ انہیں کی ایک آدم قد مورتی انڈیا گیٹ کی چھتری پر لگی تھی۔اس کی جگہ پر اب وہاں نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آدم قد مورت قائم ہو چکی ہے۔ بحر حال، دربار کورونیشن پارک میں 11 دسمبر1911 کو منعقد ہوا تھا۔10  فروری1921کو جب انڈیا گیٹ کا افتتاح ہوا تب پرنس آرتھر، ڈیوک آف کناٹ موجود تھے۔انہوں نے اپنے اس سفر کے دوران 12 فروری1921 کو پارلیمنٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا۔

کوئن وکٹوریا اور پرنس البرٹ کی ساتویں اولاد

پرنس آرتھر، ڈیوک آف کناٹ(1 مئی1850 – 16 جنوری(1942 کوئن وکٹوریا اور پرنس البرٹ کی ساتویں اولاد اور تیسرے بیٹے تھے۔وہ کناڈا کے گورنر جنرل بھی رہے۔کناڈا کے گورنر جنرل کے عہدے پر انہوں نے 1916 تک کام کیا۔شاہی خاندان کے فرد کی حیثیت سے اور ایک وائسرائے ہونے کی وجہ سے لگاتار اہم عہدوں پر رہے۔ وہ فوج میں بھی رہے اور آخر میں فیلڈ مارشل کے عہدے تک پہنچے۔ دہلی کے سب سے خاص بازار اور بزنیس سینٹر کا نام انھیں پرنس آرتھر، ڈیوک آف کناٹ اور اسٹریتھرن کے نام پر ہے۔ان کے بارے میں دہلی تفصیل سے بھلے  ہی نہ جانے لیکن ان کا نام تو لیتی ہی ہے۔

وویک شکلا اور دلی کا رشتہ

وویک شکلا ملک کے جانے مانے صحافی اور اخبار نویس ہیں۔ وہ دلی کے بارے میں حیرت انگیز جانکاری رکھتے ہیں۔ انھیں دلی کا انسائکلو پیڈیا کہا جاتا ہے۔ وہ دلی اور دلی کی تہذیب پر لکھتے رہتے ہیں۔ وہ انگریزی اور ہندی کے کئی اہم اخبارات سے وابستہ رہے ہیں۔دلی کی اہم شخصیات پر ان کی تحریریں پڑھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ کناٹ پلیس پر ان کی ایک اہم کتاب آئی ہے۔ جس کتاب کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔ اس کتاب کو ہم اردو داں طبقے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر قدسیہ نصیر ایک ممتاز مترجم ہیں۔ وہ دلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وویک شکلا کی کتاب کا اردو ترجمہ کر رہی ہیں۔ اسی کتاب سے ایک اقتباس یہاں پیش ہے۔
کتاب کے مصنف مشہور و معروف اخبار نویس وویک شکلا ہیں۔ اردو ترجمہ ڈاکٹر قدسیہ نصیر نے کیا ہے۔

Recommended