Urdu News

جنگ آزادی کا سب سے کم عمر شہید: خودی رام بوس

جنگ آزادی کا سب سے کم عمر شہید: خودی رام بوس

)تحریر:  طوبیٰ ایوب)

سال 2021میں ہم نے ہمارے ملک ہندوستان کی آزادی کے شاندار75 سال پورے ہونے کی خوشی میں  "آزادی کا امرت مہوتسو " منایا۔ یہ مہوتسو منانے کا ایک اہم مقصدیہ تھا کہ ہم بچے ہندوستان کی جنگ ِ آزادی میں حصہ لینے والے دلیر سپوتوں  کے بارے میں جانیں۔ آج میں آپ سبھی سے جنگِ آزادی کے ایک ایسے اہم سپاہی کے بارے میں بات کرنے جا رہی ہوں جو ہماری ہی عمر کے تھے جب انہوں نے یہ فیصلہ لیا کہ وہ جنگِ َ آزادی میں حصہ لیں گے اور مادر وطن کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیں گے۔ 

 جی ہاں، صحیح پہچانا آپ سب نے۔  میں ہندوستان کے سب سے کم عمر  مجاہد آزادی یعنی فریڈم فائٹر خودی رام بوس کی بات کر رہی ہوں۔ خودی رام بوس کی پیدائش 3دسمبر1889 کو موجودہ مغربی بنگال کے مدناپور ضلع میں ہوئی تھی۔ وہ صرف 6سال کے تھے جب انکی والدہ لکشمی پریا دیوی کا انتقال ہو گیا۔ اس حادثے کے ایک ہی سال بعد ان کے والد ترلوکی ناتھ بوس کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد ان کی بڑی بہن  اپ روپا رائے  نے ہی ان کی پرورش کی اور ان کا داخلہ ہیملٹن ہائی اسکول میں کرایا۔1902 میں شری اربندو اور سسٹر نویدتا نے مدناپور میں آزادی کی لڑائی سے متعلق باتیں کرنے کے لیے کئی جلسوں کا انعقاد کیا۔ خودی رام بوس نے بارہ سال کی عمر میں ہی ان جلسوں میں دلچسپی دکھائی اور وہ یہاں سے کلکتہ کے ایک بڑے انقلابی صحافی  برندا گھوش کے رابطے میں آ گئے۔ وہ پہلی بار پندرہ سال کی عمر میں گرفتار ہوئے، انکا جرم یہ تھا کہ وہ برٹش حکومت کے خلاف پرچے بانٹ  رہے تھے۔ اس واقعے سے انکا حوصلہ ٹوٹا نہیں بلکہ اور بڑھ گیا۔ اس کے ایک سال کے اندر ہی سارے انقلابی انکے جذ بے اور انکی سوجھ-بوجھ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہیں پولیس سٹیشن اور سرکاری دفتروں میں بم لگانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ خودی رام بوس نے اس موقع کا پورا فائدہ اٹھایا اور خود کو ایک بار پھر ثا بت کر دکھایا۔

خودی رام بوس پر ایک انگریز جج پر بم پھینکنے کا الزام عائد کیا گیا۔ انگریزوں کی عدالت میں ان پر مقدمہ چلا اور آخر کار انھیں پھانسی کی سزا دی گئی۔ خودی رام بوس ان اولین مجاہدین آزادی میں سے تھے جنھیں انگریزوں نے پھانسی کی سزا دی تھی۔ جس وقت خودی رام بوس کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا ان کی عمر صرف اٹھارہ 18سال آٹھ 8 مہینہ اور گیارہ 11دن تھی۔ بھارت ماں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لئے پھانسی کے پھندے کو چومنے والے وہ سب سے کم عمر ہندوستانی تھے۔ بال گنگا دھر تلک جیسے عظیم رہنما نے اپنے اخبار   ”کیسری“ میں خودی رام بوس کی بہادری اور حوصلہ مندی کی جم کر تعریف کی تھی۔ اس تعریف کے لئے بال گنگا دھر تلک کو انگریزوں نے گرفتار بھی کیا تھا۔

خودی رام بوس نے جو قدم اٹھایا تھا وہ بہت سوچ سمجھ کر اٹھایا تھا۔ اتنی کم عمر میں اپنے وطن کی آزادی کے بارے میں سوچنے والے خودی رام بوس نے ہم سب کو یہ راستہ دکھا دیا کہ جب بھی وقت پڑے ہم مادر وطن پہ اپنی جان قربان کر سکتے ہیں۔ پھانسی کی سزا سے پہلے جب انگری عدالت میں خودی رام بوس کی پیشی ہوئی تو ان کے سامنے ایک راستہ تھا کہ اپنا بیان بدل کر اپنی جان کی امان مانگیں۔ لیکن مادر وطن کے اس نونہال نے ایسا نہیں کیا۔ وہ اپنے پہلے کے بیان پر قائم رہے۔ انھوں نے پھانسی پر چڑھ جانا قبول کیا لیکن اپنے وطن کو غلام دیکھنا انھیں قبول نہیں تھا۔ سنہ اٹھارہ سو ستاون 1857کی پہلی جنگ آزادی سے لے کر 1947میں حصول آزادی تک جتنی قربانیاں اہل وطن نے دیں ان میں خودی رام بوس کی قربانی اس لحاظ سے سب سے نمایاں ہے کہ ان کی عمر محض اٹھارہ سال تھی۔ مادر وطن کے لئے جان کی قربانی دینے والے سب سے کم عمر شہید کا نام خودی رام بوس ہے۔گیارہ 11اگست 1908کو جب صبح کے چھہ بجے انھیں پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا تو اس نوجوان نے مسکراتے ہوئے وندے ماترم کہا تھا۔

جنگ آزادی، خودی رام بوس، پھانسی کی سزا، خودی رام بوس کی پھانسی، بنگال، انگریز، انگریزی حکومت، بھارت کی آزادی

Recommended