Urdu News

گوپی چند نارنگ اردو زبان وادب کے سچے داستان گو تھے

اردو زبان وادب کے عظیم نقاد، محقق ،ماہر لسانیات اور دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ

احسان فاؤنڈیشن انڈیا کے زیر اہتمام تعزیتی نشست میں مقررین کا اظہار خیال

دوشنبہ، تاجکستان(پریس ریلیز)

اردو زبان وادب کے عظیم نقاد، محقق ،ماہر لسانیات اور دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ کے سانحہ ارتحال پر احسان فاؤنڈیشن انڈیا (رجسٹرڈ) کےزیر اہتمام ایک آن لائن عالمی تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ممتاز ادیب ڈاکٹر اصغر ندیم سید (پاکستان) نےفرمائی۔ انہوں نے اظہار تعزیت کرتے ہوۓکہا کہ گوپی چند نارنگ اردو زبان وادب کے سچےداستان گو تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اردو زبان وادب کی خدمات انجام دینے میں گزار دی۔ انہوں نے نارنگ صاحب سے اپنے مراسم کا ذکر کرتے ہوۓکہا کہ سیکولر روایات کے ایسے علمبردار ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے۔

ماہر اقبالیات اور اردو اکادمی ، اےایم یو کے ڈائریکٹر پروفیسر سید محمد ہاشم نے خراج عقیدت پیش کرتے ہوۓگوپی چند نارنگ کو ایک عظیم دانشور اور نقاد قرار دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گوپی چند نارنگ کے انتقال سے پوری اردو دنیا سوگوار ہے۔ ان کی علمی وادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ ماہر سرسید ڈاکٹرراحت ابرار نے نارنگ صاحب کی  دانشورانہ قدوقامت کا ذکر کرتے ہوۓعلی گڑھ سے ان کے والہانہ لگاؤ پر روشنی ڈالی اور اے ایم یو سے ان کی خدمات کے اعتراف میں دیے گئے اعزازات اور ڈی لٹ کی سند کے بارے میں بھی بتایا۔

عہد حاضر کے ممتاز نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر( پاکستان) نےاظہار تعزیت کرتے ہوۓکہا کہ پروفیسر نارنگ نے اردو تنقید کو مابعدجدیدیت کی نئی فکرسے روشناس کروایا اور اردو تنقید  نئی سمت ورفتار سے ہم آہنگ ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ گوپی چند نارنگ کا ذکرکئی حوالوں سے ہوتا رہے گا۔ پروفیسر کوثر مظہری نے اپنے

تعزیتی پیغام میں کہا کہ گوپی چند نارنگ اردو تنقید کے ایکsignificant signature کے طور پر جانے اور پہچانے گئے. انھوں نے ہم اردو والوں کو نئی روشنی دکھائی اور مغربی افکار و نظریات کی اطلاقی نوعیت سے ہمیں واقف کرایا۔

ان کا جانا محض ایک طبعی عمل ہے جو کہ ہر بشر کے لیے ناگزیر ہے، لیکن انھوں نے ہمارے لیے بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کو چھوڑا ہے…. آئندہ کا لائحہ عمل برائے ادب انھی کی روشنی میں ہم طے کر سکتے ہیں۔

پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ نارنگ صاحب ممتاز نقاد و دانشور کے ساتھ ایک بہترین منتظم بھی تھے۔ ڈاکٹر جمیل اختر نے کہا کہ وہ اردو کے سچے خادم تھے۔ پروفیسراخلاق احمد آہن نے کہا کہ غالب اوربیدل پر اپنے گراں قدرکام سے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر افروز عالم نے کہا کہ  اردو دنیا میں وہ سب سے مقبول ترین نقاد تھے۔ ڈاکٹرشہناز قادری نے کہا کہ انہوں  نے ہمیشہ نئی نسل کی حوصلہ افزائی کی۔ محترمہ نازنین ناز( کویت) نے کہاکہ ماہر لسانیات کی حیثیت سے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ڈاکٹرصالحہ صدیقی نے ان کے انتقال کو ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔

احسان فاؤنڈیشن کے صدر اور تاجک نیشنل یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صدف نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوۓنارنگ صاحب سے اپنے ذاتی مراسم کا ذکر کیا اور انہیں گنگا جمنی تہذیب کا امین قرار دیا۔

Recommended