Urdu News

افروز عالم کے شاعرانہ امتیازات

افروز عالم کے شاعرانہ امتیازات

پروفیسر اعجاز علی ارشد(پٹنہ)

افروز عالم صاحب کی ادبی شخصیت کا سر سری مطالعہ بھی کم ازکم تین امتیازات کا احساس دلاتا ہے۔ وہ ایک مقبول شاعر ہیں، ادبی تاریخ نگار ہیں اور دیا ر غیر میں اردو کے سپہ سالار ہیں۔ گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے وہ مختلف خلیجی ممالک میں اردو شعر و ادب کی محفلیں سجا رہے ہیں، وہاں رہنے والے قلم کاروں کے احوال و آثار کا اردو دنیا سے تعارف کرارہے ہیں اور خود اپنے جذبات و محسوسات شاعری کے وسیلے سے دوسروں تک پہنچا رہے ہیں۔میری اطلاعات کے مطابق وہ ذرائع ابلاغ کے مختلف وسیلوں اورمشاعروں کے وسیلے سے اردو آبادی میں بے حد مقبول ہیں اور کم و بیش پانچ برسوں سے ان کی شاعرانہ تفہیم کا سلسہ بھی دراز ہوا ہے۔  ویسے تو اس زمانے میں ہر بوالہوس نے حسن پرستی کو اپنا شعار بنالیا ہے مگر یہ بیان بھی اب تک بے معنی نہیں ہوا ہے کہ   ؎                

کہیں چھپتا ہے اکبرؔ پھول پتوں میں نہاں ہو کر 

ایسے میں افروز عالم صاحب کے شاعرانہ امتیازات کی تلاش اگر ان کے مختلف ہم عصروں نے کی ہے یا کر رہے ہیں تو یہ ایک فطری صورت حال ہے۔ ان پر لکھی گئی تحریروں کو میں اسی صورت حال کا ایک پہلو تصور کرتا ہوں۔  بات دراصل یہ ہے کہ ا س زمانے میں ہم یا تو اپنے دوستوں کے علاوہ کسی اور کی جانب دیکھتے نہیں اور کسی مصلحت یا ضرورت کے تحت دیکھ لیں تو اس کی قدر شناسی یا نا قدری میں مبالغے کی آخری حدوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جینوین فنکاروں کا اس سے نقصان ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی تازہ اور توانا آواز کی پذیرائی اچھی لگتی ہے۔بہرحال یہ باتیں پھر کبھی۔فی الحال افروز عالمؔ صاحب کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ ان کی کتاب ”کویت میں ادبی پیش رفت“ کے لیے ان کو پہلے بھی مبارک باد دے چکا ہوں کیونکہ اس طرح کے کام زبان و ادب سے غیر مشروط جذباتی و ذہنی وابستگی کے بغیر نہیں کئے جاتے جو قابل تعریف ہے۔ اب شاعری کی طرف چلتا ہوں۔

افروز عالمؔ صاحب بھی ایسے بہت سارے تارکین وطن میں شامل ہیں جو تلاش رزق میں ہجرت کرکے ایک طرف صحراؤں کو گلزار بنا رہے ہیں اور دوسری طرف اردو شعرو ادب کی آبیاری کر کے نت نئے پھول کھلا رہے ہیں۔ یہ بات میں کئی با ر لکھ چکا ہوں کہ متن اور موضوع کی سطح پر کوئی اوریجنل کام کرنا اور انفراد حاصل کرنا بے حد مشکل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ صرف عصر حاضر کے بعض افکارونظریات کو شاعری میں پیش کرنے سے بھی کام نہیں چلتا۔ البتہ عصر حاضر کی فکر کا حصہ بن جانا یا اسے کوئی نیا رخ دینا بڑی بات ہے۔ مگر اس خوبی کا حصول اور بھی دشوار ہے۔ ایسے میں پھر وہی سوال سامنے آتا ہے کہ نئی صدی میں آغاز سفر کرنے والے افروز عالم جیسے شعراء کے وہ کون سے امتیاز ات ہیں جو انہیں ہماری یادداشت کا حصہ بنا سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں مختلف زاویوں سے ان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کے ذہن کی کلاسیکی آراستگی کا کیا حا ل ہے؟ وہ اردو شاعری کی روایت سے کس حدتک واقف ہیں؟ اس سے استفادہ کرتے ہیں تو کس حد تک؟ اور اسے کوئی نئی جہت عطا کرتے ہیں یا نہیں؟۔ دوسرے یہ کہ عصر حاضر کے جو آلام اور مسائل ہیں وہ کس حد تک ان کے تجربوں کا حصہ بنتے ہیں؟دیس بدیس کے مسافر ہونے کے سبب وہ جہاں بیں تو ضرور ہیں مگر یہ جہاں بینی ان کے فکرو فن پہ کس حد تک اثر انداز ہوئی ہے؟ اور ان سارے سوالات سے اہم تر یہ سوال ہے کہ وہ اپنے مشاہدات و تجربات کو تخلیقی تجربہ بنانے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟ بہ الفاظ دیگر ی، ان کی شاعری میں فکرو اسلوب کی ہم آہنگی ہے یا نہیں؟

اب ان سوالات کی روشنی میں ان کی غزلوں کی طرف نگاہ کیجئے۔پہلے اپنی پسند کے چند اشعار نقل کرتا ہوں   ؎

 میں اپنے شوق سے جادو نگر میں ٹھہرا ہوں 

میں اس گرفت سے باہر نکل بھی سکتا ہوں

بلیغ ذہن کے سائے میں طفل دل بھی تو ہے

کسی کی سرخئی لب سے مچل بھی سکتا ہوں

اگرچہ سنگ ہوں پتھر کی ایک مورت ہوں

تری نگاہ سے لیکن پگھل بھی سکتا ہوں

                                             …………………………

سورج کی شعاعوں سے الجھتاہے مسلسل

سایہ ہے ابھی وقت کی بانہوں میں پڑا ہے

 تاریخ بتائے گی وہ قطرہ ہے کہ دریا

آنسو ہے ابھی وقت کے قدموں میں پڑا ہے

مجھ کو ڈر ہے کوئی عابدنہ بہک جائے کہیں

دل ربا چاند کا انداز ہوا جاتا ہے

 جگاجنوں کو ذرا نقشۂ مقدر کھینچ

نئی صدی کو نئی کربلا سے باہر کھینچ

بہار میں تو نہ جانے کیسے کہاں پہ گم تھا

خزاں میں مجھ کو پکا رتا ہے یہی بہت ہے

                                             …………………………

سبھی واقف ہیں اس کی عادتوں سے

اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے

جن کو ظلمت نے باندھ رکھا ہے

چاندنی میں بکھر نہ جائیں کہیں

چاندتاروں کی روشنی رکھنا

خاک کو یہ ادب نہیں آتا

                                             …………………………

 کب تک تو سارے شہر کو بونا بتائے گا

خود سے نظر ملا کے کبھی آئینہ بھی دیکھ

 میرے لبوں پہ دیکھ نہ تو حرف خامشی

تو اپنی حرکتوں کا ذراسلسلہ بھی دیکھ

رات بھر قتل کا بازار سجا نے والے

دن میں کہتے ہیں کہ حالات پہ قابو رکھو

میں نے چار نوعیتوں کے اشعار الگ الگ پیش کئے۔ مزید مثالیں دے سکتا ہوں مگر ان اشعار پہ غور کرنے اور ان کے مجموعہ ہائے کلام کا مطالعہ کرنے سے جو نکات ابھرتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں:

(الف)  اردوغزل کی روایت سے افروز عالم اچھی طرح واقف ہیں خصوصاً غزل کی روایتی فضا سے وہ خاصے مانوس ہیں۔ طفل دل، سرخئی لب، نگاہ کی حدّت،چاند اور چاندنی، سنگ و خشت، سورج اور شعاع،سایہ اور دھوپ، دریا اور قطرہ، حق و باطل کی رزم آرائی بہار اور خزاں، جنون اور تقدیر، دلربائی اور گمراہی،یہاں تک کہ کربلااور نئی صدی کی جادونگری سب کچھ ان کی نگاہ میں ہے جس سے اپنے تاثرات یا رد عمل کے اظہار میں بقدر ضرورت اور حسب موقع انہوں نے کام بھی لیا ہے۔

(ب)  ان کے اشعار میں تلازمات کا اہتمام تو ہے لیکن وہ غیر ضروری آراستگی یا Craftsmantshipکے قائل نہیں معلوم ہوتے۔ شاید اسی لیے ان کے بعض اشعار سہل ممتنع کے دائرے میں آکر خوشگوار تاثر چھوڑتے ہیں مگر کچھ”سپاٹ بیانات“ بھی بن جاتے ہیں۔

(ج)  ان کے اسلوب میں مجموعی طور پر اعتدال اور خود ضبطی کی کیفیت نمایاں ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ اسلوب ہر جگہ یکساں رہے۔ موضوع کی نوعیت یا جذبہ و اظہار کی شدّت کے اعتبار سے اسلوب میں تھوڑی تبدیلی بھی آ تی ہے جسے ناہمواری نہیں بلکہ ایک فطری صورت سمجھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ قابل تعریف بات یہ ہے کہ شاید اپنی اسی اعتدال پسندی کے سبب انہوں نے اپنی شاعری یا ذات کے حوالے سے بزعم بڑے بڑے دعوے نہیں کئے ہیں۔زیادہ سے زیادہ اس طرح کے بیانات دئے ہیں جو ہجرت کرنے والوں کے منظر اور پس منظر میں بڑی حد تک مبنی بر حقیقت ہیں۔

 گھر کے صحرا کو گلستاں میں بدلنے کے لیے

ہم خزاؤں میں پنپنے کا ہنر رکھتے ہیں

 تہذیب نے کیا ہمیں پابند صبرو شکر

ظالم سمجھ رہے ہیں کہ بازو میں دم نہیں

(د)  غزل کے روایتی الفاظ و محاورات کو انہوں نے حسب ضرورت استعاراتی روپ دینے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں لفظوں کے مطلب متعین نہیں رہ جاتے اوور معنوی وسعت کے سبب شعر دلکش ہو جاتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کبھی کبھی کوئی ایک لفظ استعار اتی کیفیت سے ہم کنار ہوتا ہے اور کبھی پورا شعر۔

(ہ)  عصر حا ضر کے بعض واقعات و حادثات کو انہوں نے کامیابی سے غزل کے پیکر میں پیش کیا ہے۔ مذکورہ بالااشعار میں سے آخری تین اشعار خاص طور پہ اس کی مثال ہیں۔

 (و)  افروز عالم نے کچھ غزلیں غالباً مشاعروں کی ضرورت کے تحت بھی کہی ہیں مثلاً وہ غزل جس کامطلع ہے۔

  اک حسینہ کی یہ رفتار خدا خیر کرے

رقص میں جیسے ہو تلوار خدا خیر کرے

ان میں بظاہر تیور اور بانکپن تو کلاسیکی غزلوں کا ہے مگر معیار کی تلاش لا حاصل ہے۔ یہی حال ان کی بیشتر آزاد نظموں کا ہے جو بس ”برائے شعر گفتن“ کے زمرے میں آتی ہیں۔ مجموعی طور پر افروز عالم کسی ایک موضوع تک محدود نہیں ہیں۔ جمالیات، اخلاقیات، فلسفہ ء حیات و کائنات یا حسن و عشق کے مسائل و حالات کسی سے ان کو بیرنہیں ہے۔ وہ مختلف شعری صنعتوں کا بھی حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں۔ میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ فکری طور پر گمراہی کے شکار نہیں ہیں اور فنیّ اعتبار سے مسلسل بہتری کی جانب سفر کر رہے ہیں۔ اس لیے غزل کی دنیا میں ان کی جگہ محفوظ ہے۔ شہرت عام تو انہیں آج بھی حاصل ہے۔ آنے والے دنوں میں فکر و فن کی مزید پختگی انہیں اوریجنلٹی عطا کر کے شعرو ادب کی دنیا میں بقائے دوام کا حامل بنا دے گی ایسی توقع ہے۔

 

Professor Ejaz Ali Arshad

Ex. Vice Chancellor – Arbic farsi University Patna

Email: ealiarshad@ gmail.com

Recommended