Categories: عالمی

جرمنی میں مسلمانوں کو تابوت کے بغیر تدفین کی اجازت ملی

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
برلن،02اپریل(انڈیا نیرٹیو)</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جرمنی کی ریاست بائرن میں یکم اپریل سے تدفین کے لیے تابوت کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت مین شامل جماعت ایس پی ڈی کے پارلیمانی گروپ برائے انضمام کے ترجمان عارف تشدلین نے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہاکہ ’’اس کے لیے گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمیں بہت کوشش کرنا پڑی ہے۔ آخر کار اب مسلمان اپنی روایات اور مذہب کے مطابق تدفین کر سکیں گے۔<span dir="LTR">“</span></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
تدفین کے حوالے سے قانون میں تبدیلی کی منظوری سے کئی برس پہلے ہی متعدد قبرستانوں کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ انہیں اس حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میونخ شہر کی انتظامیہ کی طرف سے گزشتہ پندرہ برسوں سے یہ کوشش جاری تھی کہ مسلمانوں کو تابوت کے بغیر تدفین کی اجازت دی جائے۔قانون میں اس تبدیلی کو مسلمان انضمام اور قبولیت کی پالیسی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 جرمن ریڈیو بائرن سے گفتگو کرتے ہوئے عارف تشدلین کا کہنا تھا، ''ہر کسی کو وقار کے ساتھ تدفین کا حق حاصل ہے تاکہ وہ اپنی آخری رسومات کے بارے میں خود فیصلہ کر سکیں۔“ ان کا مزید کہنا تھا کہ قانون میں یہ تبدیلی اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی ممالک سے آ کر یہاں آباد ہونے والوں کی قدر کی جاتی ہے۔ایس پی ڈی پارٹی کی جانب سے یہ معاملہ سن 2009ءمیں بھی اٹھایا گیا تھا لیکن ریاستی پارلیمان اس قانون میں تبدیلی کی اجازت دینے سے انکار کرتی آئی تھی۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
یہاں تک کہ دس برس بعد سن 2019میں ریاستی پارلیمان نے ذمہ دار وزارت کو احکامات جاری کیے کہ وہ مذہبی اور نظریاتی بنیادوں پر اس قانون میں نرمی پیدا کرے۔ اس وقت جنازے سے متعلق آرڈینیس میں تبدیلی تو کر لی گئی لیکن اس کا نفاذ آج یکم اپریل سے ممکن ہوا ہے۔جرمنی میں تدفین کے حوالے سے قانون سازی کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ اس حوالے سے زیادہ تر اختیارات ریاستوں کے پاس ہیں جب کہ میونسپل انتظامیہ کو بھی مقامی قبرستانوں کے قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ جرمنی کی اب صرف دو ریاستیں ایسی باقی بچی ہیں، جہاں اب بھی تابوت کے بغیر تدفین کی اجازت نہیں ہے۔</p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago