اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے حکومت کی تشکیل کی دوڑ میں اپنے حریف پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو سپورٹ کر رہے ہیں۔اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ حکومت کی تشکیل کے لیے نامزد عناصر اپنے کھوکھلے نعروں سے عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ نیتن یاہو کے مطابق بائیں بازو کی حکومتی تشکیل ’اسرائیلی ریاست‘ کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہو گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ عوام نے مجھے منتخب کیا ہے کیوں کہ میں اس ریاست اور اس کے مستقبل کا نگراں ہوں، ریاست کا مفاد ہمیں عزیز ہونا چاہیے ، ہم تمام اسرائیلیوں کے لیے دائیں بازو کی حکومت تشکیل دیں گے۔نیتن یاہو نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ لوگ بائیں بازو کی حکومت بننے کی اجازت ہر گز نہ دیں ، یہ اسرائیل کی دفاعی مزاحمت کے لیے بڑا خطرہ ہے ، ذرا سوچیے کہ ایسی صورت میں غزہ ، ایران اور واشنگٹن میں کیا ہو گا … یہ لوگ ایرانی جوہری معاہدے کی حمایت کرتے ہیں ، کیا یہ لوگ حماس سے جنگ کریں گے ،، نہیں یہ لوگ ایسا ہر گز نہیں کریں گے ،، یہ لوگ تو عسکری خدمت انجام دینے سے انکار کرتے ہیں پھر یہودی بستیوں کا تحفظ کون کرے گا‘۔
دوسری جانب اسرائیل کے قوم پرست سخت گیر سیاست دان نفتالی بینیٹ نے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے مخالف کیمپ میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد بنیامین نیتن یاہو کا جانا یقینی نظر آ رہا ہے اور ان کے مسلسل چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننے کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ اس طرح نیتن یاہو کے بارہ سالہ طویل اقتدار کا سورج غرب ہو جائے گا۔بینیٹ نے اپنی جماعت یمینا کے اجلاس کے بعد اتوار کو ایک بیان میں کہا "میں اپنے دوست یائرلیپڈ کے ساتھ مل کرقومی اتحاد کی حکومت کی تشکیل کے لیے ہر ممکن اقدام کروں گا"۔
یمینا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تمام ارکان نے نئی مخلوط حکومت کے قیام کے لیے نفتالی بینیٹ کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کی خبری ویب گاہ وائی نیٹ نیوز کے مطابق بینیٹ نے ارکان پارلیمان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ تبدیلی حکومت کی جانب مارچ کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ "نیتن یاہو کو دائیں بازو کی حکومت کی تشکیل کے لیے درکارحمایت حاصل نہیں ہے اور یائر لیپڈ سے ڈیل کی صورت میں پانچویں مرتبہ قومی انتخابات کی ضرورت پیش نہیں آئے گی"۔
لیکن نیتن یاہو مخالف اتحاد بھی کوئی زیادہ مضبوط نہیں ہوگا اور اس کو پارلیمان کے عرب ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی مگر عرب ارکان بینیٹ کے بیشتر ایجنڈے کے مخالف ہیں۔بینیت مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کے لیے مزید بستیوں کی تعمیر کے حق میں ہیں اور اس فلسطینی علاقے کو جزوی طور پر صہیونی ریاست میں ضم کرنے سے متعلق بیانات جاری کرتے رہے ہیں جب کہ عرب ارکان اس کے سخت خلاف ہیں۔