سری نگر، 30؍ مارچ ( زبیرقریشی )
شہر سرینگر سے تعلق رکھنے والی اسمہ بٹ نے سال 2016 میں ضلع بڈگام میں بھیڑوں کا فارم شروع کیا تھا اور آج کی تاریخ میں اسمہ نہ صرف خود کے لئے روزگار کما رہی ہے بلکہ دوسروں کو بھی روزگار کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔
ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کرنے والی اسمہ بٹ نے کچھ الگ کرنے کی ٹھانی اور ایک کامیاب کاروباری کے طور پر دیگر نوجوانوں کے لیے تحریک کی صورت ابھری ۔یوں تووادی کشمیر میں کئی ایسی خواتین ہیں جو کہ کاروبار میں اپنا نام کما چکی ہیں لیکن اسمہ بٹ جیسی خواتین بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے مردوں کا پیشہ سمجھے جانے والے کام مویشی پروری کو اختیار کر کے ایک فارم قائم کرکے کامیاب خاتون انٹرپرنیور کے طور اپنی ایک الگ پہنچان بنائی۔
شہر سرینگر سے تعلق رکھنے والی اسمہ بٹ نے ایل ایل بی کیا ہے۔ گھریلو مصروفیات کی وجہ سے اگرچہ اسمہ بطور وکیل اپنے پریکٹس جاری نہیں رکھ پائیں، تاہم اپنے بچوں کی بہتر پرورش کرنے اور گھر والوں کو بھی وقت دینے کے لیے اس نے اپنا ہی کچھ کرنے کی چاہ لیے شیپ فارم قائم کرنے کا فیصلہ لیا۔ ایسے میں انہوں نے 2016 میں اپنے فارم کی بنیاد ڈالی۔
مگر کچھ حائل مشکلات کی وجہ سے یہ سال 2020 میں اپنے فارم کو بہتر طور قائم کرنے میں کامیاب ہو پائیں اور آج کی تاریخ میں ان کے فارم میں مختلف اقسام کی 2 سو سے زائد بھیڑیں موجود ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھیڑ پالنے کے اس کام میں جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے شروع شروع میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ہمت اور حوصلہ اور گھریلو کے تعاون سے حائل رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے بہر حال کامیابی ملی۔ “وائٹ وولز” کے نام وسطی ضلع بڈگام میں قائم کیے گئے۔
اس فارم سے اسمہ بٹ نہ صرف خود روزگار کما رہی ہیں بلکہ مزید 10 افراد کو بھی روزگار فراہم کررہی ہیں، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اسمہ کے فارم میں بھیڑ کے علاوہ بطخ کی کئی اقسام اور کشمیری نسل کے مرغ مرغیاں بھی پالی جاتی ہیں۔
اسمہ کے اس کاروبار میں اپنے خاوند اور سسرال والوں کا بھرپور ساتھ ملا ہے جس کے نتیجے میں یہ اپنے کاروبار کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوپائی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر والوں کے ساتھ اور تعاون کافی اہم ہے کیونکہ تبھی اپنے خوابوں کو سہی معنوں میں حقیقیت کا جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر عورت خود اعتمادی اور اپنے دائرے اختیار میں رہ کر کسی بھی شعبے میں اپنی قسمت آزمائی کرے گی تو کامیابی ضرور اس کے قدم چومے گی۔
جموں و کشمیر نے ملک کو ہزاروں محنتی خواتین دی ہیں جو کامیابی کے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ جو چیز ان کی کہانیوں کو زیادہ دلکش بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے سفر رکاوٹوں سے بھرے ہوئے تھے جن پر انہوں نے کامیابی سے قابو پایا۔ کامیاب ہونے کے ان کے پختہ عزم نے انہیں آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا اور اپنے راستے میں ملنے والے ہر شخص کو متاثر کیا۔
وادی کشمیر میں خواتین اب مردوں کے شان بشان کام کررہی ہیں اور مختلف شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا رہی ہیں۔ وہیں یہاں کی اعلی تعلیم یافتہ خواتین سرکاری نوکری کے پیچھے بھاگنے کے بجائے خود روزگار کمانے پر اپنی توجہ مرکوز کررہی ہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…