جے بدری وشال، جے بدری وشال، جے بدری وشال،
اتراکھنڈ کے گورنر گرمیت سنگھ جی، یہاں کے مقبول نرم گو، ہر پل جس کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی ہے، ایسے ہمارے پشکر سنگھ دھامی جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جناب تیرتھ سنگھ راوت جی، بھائی دھن سنگھ راوت جی، مہندر بھائی بھٹ جی، دیگر تمام معززین اور میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں،
آج بابا کیدار اور بدری وشال جی کے درشن کرکے، ان کا آشیرواد حاصل کرکے زندگی مالا مال ہوگئی، دل خوش ہو گیا، اور یہ پل میرے لیے ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گئے۔ بابا کے قدموں سے، بابا کے حکم سے، بابا کے کرم سے پچھلی بار آیا تھا، تو کچھ الفاظ میرے منہ سے نکلے تھے۔ وہ الفاظ میرے نہیں تھے، کیسے آئے؟ کیوں آئے؟ کس نے دیے، پتہ نہیں ہے۔ لیکن یوں ہی منہ سے نکل گیا تھا۔ یہ دہائی اتراکھنڈ کی دہائی ہوگی۔ اور مجھے پختہ یقین ہے، ان الفاظ پر بابا کے، بدری وشال کے، ماں گنگا کے، مسلسل آشیرواد کی طاقت بنی رہے گی، یہ میرا من کہتاہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے آج میں آپ کے درمیان، ان نئے پروجیکٹوں کے ساتھ پھر اسی
مانا گاؤں، بھارت کے آخری گاؤں کے طور پر جانا جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہمارے وزیراعلیٰ نے خواہش ظاہر کی اب تو میرے لیے بھی سرحد پر بسا ہر گاؤں ملک کا پہلا گاؤں ہی ہے۔ سرحد پر بسے آپ جیسے سبھی میرے ساتھی ملک کے مضبوط محافظ ہیں۔ اور میں آج مانا گاؤں کی پرانی یادیں تازہ کرنا چاہتا ہوں۔ شاید کچھ پرانے لوگ ہوں ان کو یاد ہو، میں تو وزیر اعلیٰ بن گیا، وزیر اعظم بن گیا، اس لیے سرحد کے اس پہلے محافظ گاؤں کو یاد کر رہا ہوں، ایسا نہیں ہے۔ آج سے 25 سال پہلے جب میں اتراکھنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک کارکن کے طور پر کام کرتا تھا۔ نہ کوئی مجھے زیادہ جانتا تھا، نہ میری اس قسم کی کوئی پبلک لائف تھی۔ میں تنظیم کے لوگوں کے درمیان میں ہی اپنی زندگی گزارتا تھا،
سوال پوچھتے تھے کہ صاحب اتنا دور کتنی محنت سے جانا پڑے گا، کتنا وقت جائے گا۔ میں نے کہا بھائی جس دن اتراکھنڈ بی جے پی کے دل میں مانا کی اہمیت پختہ ہو جائے گی نا، اتراکھنڈ کے عوام کے دل میں بی جے پی کے لیے اہمیت بن جائے گی۔ اور اسی کا نتیجہ یہ مانا گاؤں کی مٹی کی طاقت ہے۔ یہ مانا گاؤں کے میرے بھائیوں بہنوں کا حکم ہے، آشیرواد ہے کہ آج لگاتار آپ کے آشیرواد بنے رہتے ہیں۔ اور میں تو اتراکھنڈ میں نئی سرکار بننے کے بعد عوامی پروگرام میں پہلی بار بول رہا ہوں۔ تو میں آج جب یہاں آیا ہوں، اور مانا کی سرزمین سے میں پورے اتراکھنڈ کے بھائی بہنوں کو، ہم سب کو دوبارہ خدمت کرنے کا موقع دیا ہے، اس لیے دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
21ویں صدی کے ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر کے دو بنیادی ستون ہیں۔ پہلا، اپنی وراثت پر فخر اور دوسرا، ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش۔ آج اتراکھنڈ، ان دونوں ہی ستونوں کو مضبوط کر رہا ہے۔ آج صبح میں نے بابا کیدار کی اور بعد میں بدری ناتھ وشال کے قدموں میں جا کر پرارتھنا کی اور ساتھ ساتھ، کیوں کہ پرماتما نے مجھے جو کام دیا ہے وہ بھی مجھے کرنا ہوتا ہے۔ اور میرے لیے تو ملک کے 130 کروڑ عوام وہ بھی پرماتما کی شکل ہے۔ اس لیے میں نے ترقیاتی کاموں کا بھی جائزہ لیا۔ اور اب آپ کے درمیان آ کر مجھے 2 روپ وے پروجیکٹ کا سنگ بنیاد رکھنے کا موقع ملا ہے۔ اس سے کیدار ناتھ جی اور گرودوارہ ہیم کنڈ صاحب کے درشن کرنا اور آسان ہو جائے گا۔ گرو گرنتھ صاحب کی ہم پر کرپا بنی رہے۔
سبھی قابل احترام گروؤں کی ہم پر کرپا بنی رہے. کہ ایسا مقدس کام کرنے کا گروؤں کے آشیرواد سے ہمیں موقع ملا ہے۔ بابا کیدار کے آشیرواد بنے رہیں۔ اور آپ تصور کر سکتے ہیں، یہ روپ وے کھمبے، تار، اندر بیٹھنے کے لیے کار، اتنا ہی نہیں ہے۔ یہ روپ وے تیز رفتار سے آپ کو بابا کے پاس لے جائے گا اتنا نہیں ہے۔ اس کے ہونے سے اس پر کام کرنے والے لوگوں سے آپ تصور نہیں کر سکتے ہیں. میرے ملک کے 130 کروڑ شہریوں کے آشیرواد ان پر برسنے والے ہیں۔ ہیم کنڈ صاحب دنیا بھر میں گرو گرنتھ صاحب کی مقدس پوجا کرنے والے. جتنے بھی میرے بھائی بہن ہیں، آج ہمیں آشیرواد برساتے ہوں گے. کہ آج ہیم کنڈ صاحب تک کا یہ روپ وے بن رہا ہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…