قومی

سرکار نوکریاں دینا چاہتی ہیں لیکن افسران نوجوانوں کو نوکری سے ہٹانے پر آمادہ

کچھ لوگوں کو کنٹریکٹ یا پھر ٹھیکہ پر بحال کرکے سیکڑوں نوجوانوں کے گھر کے چولہے بجھانے میں لگے ہیں سرکار کے یہ افسران

اسٹاف رپورٹ: انڈیا نیرٹیو اردو

 آداب یہ آکاشوانی ہے اب آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے خبریں سنئے

یہ وہ مانوس جملہ ہے جسے ہم ریڈیو کے وسیلے سے سنتے آئے ہیں۔ اردو سے تعلق رکھنے والے سبھی عام وخاص جنہیں خبریں سننے کا شوق ہو وہ آل انڈیا ریڈیو سے واقفیت رکھتے ہوں گے۔ ریڈیو نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور اس سفر میں ادنی سے ادنی شخص کا اپنا حصہ ہے۔ آل انڈیا ریڈیو کا نیوز سروس ڈویژن اس وقت کچھ الگ کرنے کی کوششوں میں ہے۔

ذرائع کی مانیں تو اردو نیوز سے وابستہ سبھی کیزول اسٹینوگرافر حضرات کی چھٹی کرنے کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں ہیں۔ ان ہی کیزول اسٹینوگرافر کی بدولت یہ سروس پچھلے 35 برسوں سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے ۔ ایک لمحے میں اتنے سارے افراد کو بے روزگار کردینا کہاں کا انصاف ہے۔ایک طرف حکومت نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی یقین دہانی کرتی ہے تو دوسری جانب کچھ افراد کی وجہ سے چور راستوں سے روزگار چھیننے کے قواعد بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ قول و فعل کا یہ تضاد بہت مایوس کن ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

اردو نیوز میں سبھی کیزول اسٹینوگرافر کے بجائے چند افراد کو کنٹریکٹ پر رکھنے کی اندرون خانہ بات جاری ہے۔ یہ چند افراد کسی کمپنی کے توسط سے پورے مہینے اپنی خدمات مہیا کریں گے۔ سرکاری اداروں میں تقرری کا ایک پیمانہ مقرر ہوتا ہے جس میں عمر کی ایک خاص حد متعین ہوتی ہے لیکن یہاں سبھی قوانین بالائے طاق رکھ کر چند افراد کو اس میں جگہ دینے کوشش ہورہی ہے۔ زندگی کی 58-57بہاریں دیکھ چکے کچھ عمر رسیدہ صاحبان بھی قطار میں ہیں۔سوال یہ ہے کہ کمپنی کے ذریعہ ٹھیکے پر رکھنے میں کس قسم کا فائدے ہیں۔

ابھی کچھ دن قبل ہی نیوز ریڈر کم ٹرانسلیٹر کی بحالی کنٹریکٹ پر کی گئی، جس میں کافی دھاندلی ہوئی۔ پرسار بھارتی نے کنٹریکٹ پر بحالی کے لیے نوٹیفکیشن نکالا، جس میں عمر کی حد 40 سال تھی، مگر وہاں پہلے کام کررہے کچھ لوگوں کو پینل میں شامل کرنے کے لیے سرکار ی نوٹیفکیشن کو بالائے طاق رکھ کر افسران نے پچھلے دروازے سے 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو بحال کیا اور 40 سال سے کم عمر کے صلاحیت مند نوجوانوں کو نظر انداز کردیا۔ اس طرح سے افسران 5-6 نیوز ریڈر کم ٹرانسلیٹرکو کنٹریکٹ پراور 7-8 اسٹینو گرافر کو ٹھیکے پر رکھ مہینے میں 6 ڈیوٹی پانے والے سیکڑوں کیزول کام کررہے لوگوں کے گھر کے چولہے کو بجھانے کا کام کررہے ہیں۔

سرکار ایک طرف نوجوانوں کو نوکریاں دینے کے لیے گاہے بگاہے ’جاب میلے‘ کا انعقاد کرتی ہے اور دوسری طرف سرکار کے افسران نوجوانوں کو نوکریوں سے نکالنے پر آمادہ نظرآتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسٹینو گرافر کو ٹھیکے پر بحال کرنے والی کمپنی انہی افسران کے جاننے والوں کی ہے، جسے وہ فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں اور انہیں اس کے بدلے کمیشن مل سکتا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

واضح رہے کہ کورونا -19دور میں کیزول پر کام کررہے لوگوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر ریڈیو سروس کو بحال رکھا۔ ان لوگوں نے اپنے گھروالوں کو نظر انداز کرکے اور اپنی جان پر کھیل کر وہاں ڈیوٹیاں کیں اور افسران اپنے گھروں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ بحفاظت ورک فراہم ہوم کرتے رہے۔ اس وقت ان افسران نے ٹھیکے پر کام کرانے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ اس وقت کیژول کو12 سے 15 ڈیوٹیاں ملتی تھیں اور کچھ دن کے بعد جب حالات معمول پر آئے تو انہیں افسران نے نئے نئے قوانین بنانے شروع کردیے اورکیزول کو 6 ڈیوٹیوں تک محدود کر دیا۔

کوروناوبا کے دور میں محدود ڈیوٹیوں کا قانون کہاں تھا؟ اپنے آپ کو بحفاظت گھروں میں قید کرلینے والے عمررسیدہ افراد کہاں تھے؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جن لوگوں نے کورونا وبا میں اپنی جان کی بازی لگاکر ڈیوٹیاں کیں انہیں کورونا واریئرس کا خطاب دے کر اعزاز سے نوازا جانا چاہئے تھا لیکن افسران انہیں باہر کا راستہ دکھا کر ان کے خدمات کا اعتراف کرنا چاہ رہے ہیں۔یہ کس طرح کا اعتراف ہے؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟

 اگر یہ تمام فیصلے سرکار کے ہیں توحکومت سے اپیل ہے کہ وہ اپنے فیصلے از سر نوغور کرے۔ اگر ان تمام فیصلوں میں افسران کی منمانی ہورہی ہے تو بڑی سنجیدگی سے ان تمام پہلوؤں کی جانچ کی جانی چاہیے کیونکہ اس سے حکومت کی بدنامی لازمی ہے۔موٹی رقم پانے والے افسران بھی اپنے آپ کو ان لوگوں کی جگہ پر رکھ دیکھیں اور سنجیدگی سے غور کریں کہ جولوگ پورے مہینے میں 6 ڈیوٹیاں پاکر اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں ان کے دل پر کیا بیت رہی ہوگی۔

ہمیشہ سے ایک چیز یہ نظر آتی ہے کہ کیزول کو چار چار-پانچ پانچ مہینے پیمنٹ نہیں کی جاتی ہے۔ کام تو کرالیتے ہیں اور جب پیمنٹ کرنے کی باری آتی ہے تو اس وقت نئے نئے بہانے بنائے جاتے ہیں، جبکہ سرکار تمام ڈپارٹمنٹ کو بجٹ پہلے ہی مختص کردیتی ہے اور وہ پیسے بینک میں پڑے ہوتے ہیں اور سود کی شکل میں افسران بندر بانٹ کرتے ہیں۔

Dr. R. Misbahi

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago