کلہن، راج ترنگنی اور کشمیر
گیارہویں صدی کے آخر میں، کاشمیر میں ہرش نام کے راجا کی حکومت تھی۔تخت پر بیٹھنے کے کچھ ہی دنوں کے بعد اس نے اپنی رعایا پر ظلم ڈھانا شروع کر دیا۔ظلم وزیادتی سے تنگ آ کرکاشمیر کی عوام نے بغاوت کر دیا۔یہ بغاوت لگاتار سات سالوں تک جاری رہی۔آخر میں راجا ہرش اس کے خلاف رچی گئی ایک سازش کے تحت مارا گیا۔
ہرش کے دربار میں،ایک برہمن وزیر تھے چمپک،وہ راجا کے بہت وفادار تھے چمپک کے بیٹے کا نام کلہن تھا۔راجا کی موت کے وقت کلہن ہوش سنبھال چکے تھے۔چنانچہ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سن 1100میں پیدا ہوئے تھے۔راجا کے قتل کے بعد چمپک کی زندگی بھی بدل گئی۔ انہوں نے خود کو شاہی کام کاج سے الگ کر لیا۔
کلہن کے والد کی طرح ان کے چچا، کنک کی بھی راج دربار میں اچھی پہنچ تھی۔کنک ایک اچھے موسیقار تھے۔راجا کی خیر اندیشی کا وہ خوب فائدہ اٹھاتے تھے۔حکومت کی طرف سے انہیں اکثر انعامات ملتے رہتے تھے۔کلہن،جن کی پرورش دربا ر کی شان و شوکت میں ہوئی تھی،قدیم دور کے عظیم تاریخ دان مانے جاتے ہیں۔کاشمیر کی قدیم تاریخ کو جاننے اور سمجھنے کے لیے راج ترنگنی اس کی اصل اور سچی تاریخ ہے۔
پرانے اور روایتی ہندوستانی شاعروں نے اپنے بارے میں کہیں کوئی تفصیلی ذکرنہیں کیا۔یہاں تک کہاانہوں نے جوتاریخی واقعات پیش کیے ہیں،وہ ان کے تصورکے مختلف رنگوں میں رنگے ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے اصل تاریخ پر پردہ پڑ جاتا ہے۔کلہن کی تحریر میں بھی یہ دونوں عناصر تھوڑے بہت ملتے ہیں۔ان کی تصنیف سے ہمیں اس وقت کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کے بارے میں بھی بہت ساری معلومات حاصل ہوتی ہیں۔کاشمیر کی منظوم تاریخ لکھ کر کلہن نے ایک عظیم کام کیا ہے۔ سنسکرت کے لفظ ’ترنگ‘ کا مطلب ہوتا ہے لہر۔راج ترنگنی میں انہوں نے کاشمیر کے شاہی خاندانوں کے اُتار چڑھاؤ کا ذکر آٹھ’ترنگوں‘ میں کیا ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ دولت کی کوئی قدر و قیمت نہیں اوریہ ادنیٰ شئے ہے۔ان کے مطابق شاعر ہونا زیادہ قابلِ قدر تھا۔وہ کہتے تھے کہ جو لوگ ہاتھی کی آرا م دہ سواری کے مزے لیتے ہیں، وہ لوگ جن کے پاس دولت اور آسودگی ہے، وہ لوگ جن کے بڑے بڑے محلوں میں ہزاروں خوبصورت عورتیں رہتی ہیں، جب وہ مر جائیں گے تو دنیا انہیں بھول جائے گی۔لیکن ایک شاعر کی شخصیت لافانی ہے۔وہ دنیا کے لیے راستہ ہموار کرتا ہے۔ انہیں سب خصوصیات کی وجہ سے خود کلہن اورکاشمیر کی تاریخ پر ان کی تصنیف راج ترنگنی،آج بھی مشہور ہیں۔ کلہن کے والدبھگوان شیو کے پُجاری تھے اور وہ ہر سال بٹیشورجاتے تھے۔بچپن میں کلہن بھی ان کے ساتھ جاتے تھے۔ان کے والد کے مذہبی خیالات کا اثر کلہن پر بھی پڑا۔اس کے باوجود، کلہن کے دل میں بُدھ مذہب کی بہت عزت تھی۔شکتی فرقے کے عقیدت مندوں کا قربانی دینا اور چڑھاوا چڑھانا بالکل پسند نہیں تھا۔وہ عدم تشدّد کے پیغامبر تھے۔ اپنی تصنیف راج ترنگنی ایک سال میں مکمل کرنے کے لیے کلہن کو کافی محنت کرنی پڑی۔لیکن کتاب لکھنے سے پہلے کلہن کو کافی مطالعہ کرنا پڑا۔انہوں نے سنسکرت کے بہت سارے مہاکاویوں (ایپِک)کا مطالعہ کیا،مثلاً، کالی داس کا ’رگھوونش‘،بان بھٹ کا ہرش چرِتر، وِلہن کا وِکرمانک دیوچرِت، رامائن،مہابھارت او ر ورہمہیرکی بِرہت سمہت وغیرہ۔اس کے علاوہ جدید دور کے تاریک دانوں کی طرح انہوں نے تاریخی مواد اکٹھا کرنے کے لیے اور انہیں اپنی تاریخی تصنیف میں استعمال کرنے کے لیے قدیم مسودوں کابھی مطالعہ کیا۔ برہمن خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے وہ اس دور کے برہمنوں کی کمیوں اور برائیوں سے بہت اچھی طرح واقف تھے۔وہ جانتے تھے کہ برہمن پہلے کی طرح محنت نہیں کرتے،نہ تو پڑھنے میں نہ ہی پڑھانے میں۔وہ خود پسند ہو گئے تھے اور بلا وجہ شاہی کام کاج میں دخل اندازی کرتے تھے۔اسی لیے، کلہن انہیں عزت کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔ جواہر لال نہرو نے راج ترنگنی کے لیے صحیح لکھا ہے یہ یہ کتاب تاریخ کے ساتھ ساتھ شاعری بھی ہے۔یہ تصنیف آٹھ سال پہلے لکھی گئی۔اس میں ایک ہزار سال کی تاریخ کا ذکر ہے اور اس کتاب کے پہلے حصے کے مقابلے دوسرا حصہ زیادہ اچھا لکھا ہوا ہے۔اس میں محلوں کی سازشوں، قتل،دھوکوں، جنگوں، بے رحمی،سنگ دلی،وغیرہ کاتفصیلی بیان ہے۔جیسا کہ اس کے نام سے ہی پتہ چلتا ہے،یہ بادشاہوں کی کہانی ہے عام لوگوں کی نہیں۔اس میں اس وقت کے سیاسی،سماجی اور اقتصادی حالات کا بہت خوبصورت ذکر ملتاہے۔اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت عورتیں ’سبھا‘کی رُکن تھیں اور جنگ کے میدان میں بہادر سپاہیوں کی طرح جنگ کرتی تھیں۔ کلہن کو شاہی دربار کے بہت سارے اندرونی قصوں کی جانکاری تھی۔ہرش کی موت کے بعد ان کے والد نے شاہی دربار سے اپنے تعلقات ختم کر لیے۔ان کے چاچا کنک بھی کاشی میں جا کر بس گئے۔کلہن کو سرکاری نوکری بہت آسانی سے مل سکتی تھی۔اگر وہ چاہتے تو وزیر کا عہدیٰ بھی حاصل کر سکتے تھے۔لیکن دربار کی نوکری میں انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔وہ ادب کے عاشق تھے اور انہوں نے اپنا سارا وقت پڑھنے اور لکھنے میں بِتایا۔ کلہن نے کشمیر کی تاریخ اتنے دلچسپ انداز میں لکھی ہے کہ اسے پڑھنے پر ناول کا مزہ ملتا ہے۔انہوں نے کشمیر کے ہر راجہ کے دور کے واقعات کی جیتی جاگتی تصویر کھینچ دی ہے۔جگہ جگہ پر انہوں نے کچوکے دیے ہیں اور الفاظ کے کانٹے چبھوئے ہیں، مثلاً: ”جس کسی نے بھی اپنے بیٹے کو بھوک سے تڑپتے ہوئے دیکھا ہو،اپنی بیوی کو کسی دوسرے کے گھر میں کام کرتے ہوئے دیکھا ہو، جس کا دوست پریشانی میں ہو،ایک بھوکی گائے جسے کھلانے کے لیے چارا نہ ہو، اور وہ جس نے اپنے مالک کو دشمن کے ہاتھوں شکست کھاتے دیکھا ہو،اس کے لیے دوزخ کی تکلیف بھی زیادہ بری نہیں ہونگی۔“ کلہن ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔انہوں نے اپنی زندگی میں برے دن کبھی نہیں دیکھے۔انہیں کبھی محرومیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا،شاید اسی لیے انہیں دولت کی کوئی لالچ نہیں تھی۔ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے ان کی کتاب میں حکومت کی غریب عوام کی پریشانیوں کا کوئی مختصر حوالہ بھی نہیں ملتا۔انہوں نے ہمیشہ بادشاہوں اور حاکموں کے بارے میں ہی لکھا ہے۔یہ اس وقت کی تاریخ کا نظریہ تھاکہ بادشاہ کو ہی توجہ کا مرکز بنایا جاتا تھا۔مہا بھارت میں بھی یہ لکھا ہوا ہے ، ”راجا کالسیہ کارنم “۔جس کے معنی ہیں کہ بادشاہ ہی اپنے وقت کی شکل و صورت بناتا ہے۔کلہن سے پہلے بھی ۱۱ (گیارہ)بارکشمیر کی تاریخ لکھی جا چکی ہے اور کلہن نے ان سب کو پورے کا پورا شروع سے آخر تک پڑھا۔لیکن اب ان گیارہوں تاریخی تصنیفات کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کا کام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کلہن نے راجا ہرش کی موت کا واضح نقشہ پیش کیا ہے۔جس وقت ہرش کا قتل ہوا اس وقت’مُکت‘ نام کا ان کا وفادار ملازم ان کے ساتھ تھا۔اپنے مالک کی موت کے بعدوہ کسی طرح دشمنوں کے چنگل سے بچ نکلا۔اسی نے کلہن سے راجا کے قتل کی تفصیلات بیان کی تھیں۔
کلہن نے اپنے چچا کنک کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ کاشی میں رہتے تھے، لیکن ان کی جائے پیدائش پریہا س پور تھی۔اس سے ایسا لگتا ہے کہ کلہن کے والد بھی پریہاس پور میں رہتے تھے اور یہ ممکن
ہے کہ کلہن وہیں پیدا ہوئے ہوں۔ ہم نے رامائن میں پڑھا ہے کہ سورگ جانے سے پہلے بھگوان رام نے اپنے بیٹوں اور بھتیجوں کواپنے پاس بلایا اور اپنی سلطنت ان کے درمیان تقسیم کر دی۔بنٹوارے کی ترتیب کے مطابق انہوں نے کشمیر کی اپنی ملکیت لَو پوری اور کُش پوری اپنے دونوں بیٹوں لَو اور کُش کو دے دیا۔کشمیر کے راجاؤں کے ذکر میں کلہن نے ان دونوں راجاؤں کا بھی ذ کر کیا ہے۔کلہن کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔اس موضوع پر گہری تحقیق چل رہی ہے۔جو بھی ہو ادب کا یہ لافانی پیغمبر ہمیشہ کشمیر کی تاریخ کا سر چشمہ بنا رہے گا۔(بہ شکریہ پبلی کیشنز ڈپارٹمنٹ، حکومت ہند).
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…