Categories: قومی

کوٹہ کے کسان نے آم کی ایک ایسی قسم تیار کی ہے ، جس میں پورے سال پھل آتے ہیں

<p>
 </p>
<div>
 </div>
<div>
<div class="pt20" style="box-sizing: border-box; padding-top: 20px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px;">
 </div>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">نئی دلّی ،</span></span><span dir="LTR" style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">05</span></span><span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> اپریل /</span></span> <span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">راجستھان کے کوٹہ کے کسان شری کشن سمن ( 55 سالہ ) نے آم کی ایک نئی قسم تیار کی ہے ، جس میں آم کی پورے سال بہار آتی ہے ، جس کا نام سدا بہار رکھا گیا ہے اور یہ زیادہ تر بیماریوں اور آم کو ہونے والے  دیگر نقصان سے محفوظ رہتی ہے  ۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          یہ پھل لنگڑے کےمقابلے زیادہ میٹھا ہوتا ہے اور ایک بونی نسل ہونے کی وجہ سے کچن گارڈن  یا قریب قریب پیڑ لگانے کے لئے  موزوں ہے اور انہیں  کچھ سال کے لئے گملوں میں بھی لگایا جا سکتا ہے ۔  اس کے علاوہ ، اس کا گودا  گہرے نارنجی رنگ کا اور ذائقہ میں میٹھا ہوتا ہے اور اس کے گودے میں ریشے کم ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ دوسری نسل سے مختلف ہے ۔  اس نسل کے آم میں موجود  تغذیہ بخش اجزاء صحت کے لئے بہت مفید ہیں ۔ </span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          اس نسل کے آم کے پیچھے   غریب شری کشن کا ہاتھ ہے ، جو  دوسری کلاس کے بعد اسکول نہیں گئے اور انہوں نے اپنا  خاندانی  باغبانی کا پیشہ ( مالی ) اپنایا ۔ انہیں  پھولوں کو  اگانے  اور   باغبانی کے بندوبست میں دلچسپی تھی  ، جب کہ اُن کا خاندان   گیہوں اور  دھان بونے پر توجہ  دیتا تھا ۔  انہوں نے اِس بات کو محسوس کیا کہ گیہوں اور   دھان  جیسی فصلوں   میں کامیابی  کا انحصار بیرونی عناصر   جیسے بارش  ، مویشیوں  کے حملے وغیرہ پر ہے  ، جس سے  اُس کا منافع کم ہو جاتا ہے ۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          انہوں نے اپنے خاندان کی آمدنی  میں اضافہ کرنے کے لئے  پھول اگانا شروع کئے  اور سب سے پہلے  انہوں نے  گلاب کی مختلف  قسمیں  اگائیں اور  انہیں بازار میں  بیچا ۔ اس کے ساتھ ، انہوں نے آم اگانا بھی شروع کیا   ۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          سن 2000 ء میں ، انہوں نے اپنے باغ میں آم کا ایک درخت دیکھا ، جس میں  کافی تیزی سے بڑھت ہو رہی تھی اور جس کے پتے گہرے ہرے رنگ کے  تھے۔  انہوں نے محسوس کیا کہ یہ درخت پورے سال ہرا بھرا رہتا ہے ۔ اس خصوصیت کا مشاہدہ  کرنے کے بعد انہوں نے اِس درخت سے آم کی پانچ قلمیں لگائیں  ۔ اس قسم کو تیار کرنے میں  اور اس کی قلم لگانے میں  انہیں 15 سال کا عرصہ لگا ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ قلم والے  اِن پیڑوں پر دوسرے سال سے ہی  پھل آنے لگے ہیں ۔ </span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          اس اختراعی قسم  کی تصدیق   بھارت کے نیشنل انوویشن فاؤنڈیشن ( این آئی ایف ) نے کی ہے ، جو حکومتِ ہند کے سائنس و ٹکنالوجی کے محکمے کا ایک خود مختار ادارہ  ہے ۔ این آئی ایف نے آئی سی اے آر – انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہورٹیکلچر ریسرچ ( آئی آئی ایچ آر ) ، بنگلور  کے ذریعے ، اِس کا تجزیہ کیا گیا اور  راجستھان کی ( جے پور ) ، جوبنر  میں ایس کے این ایگریکلر یونیورسٹی نے ، اِس کی فیلڈ ٹسٹنگ کی ۔ اب اِس قسم کو  پلانٹ کی ورائیٹی کے تحفظ اور کسانوں کے حقوق کے قانون کے تحت رجسٹر کرنے  اور نئی دلّی میں آئی سی اے آر کے نیشنل بیورو آف پلانٹ جینیٹک ریسورسز (این بی پی جی آر) میں رجسٹر کرنے کا عمل کیا جا رہا ہے ۔  این آئی ایف نے آم کی سدا بہار نسل  کی نئی دلّی میں  راشٹرپتی بھون کے مغل گارڈن میں  شجر کاری  میں بھی مدد کی ہے ۔ </span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">سدا بہار آم کی اِس قسم  کو تیار کرنے کے لئے شری کشن سمن کو  این آئی ایف کا نواں نیشنل گراس روٹ اننویشن اینڈ ٹریڈیشنل نالج ایوارڈ  سے نوازا گیا ہے  اور مختلف فورموں پر ، اِس کا اعتراف کیا گیا ہے ۔  این آئی ایف مختلف چینلوں  کے ذریعہ  کسانوں کے نیٹ ورک، سرکاری اداروں ، ریاستی زرعی محکموں اور رضاکارانہ تنظیموں وغیرہ کو ، اس بارے میں معلومات فراہم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے ۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">شری کشن سمن کو ہندوستان اور بیرونی ملکوں سے سال 2017 ء سے 2020 ء کے درمیان 8000 سے زیادہ سدا بہار کی قلموں کے آڈر موصول ہوئے ہیں ۔ انہوں نے 2018 ء سے 2020 ء کے دوران   مختلف ریاستوں  آندھرا پردیش ، گوا ، بہار ، چھتیس گڑھ ، گجرات ، ہریانہ ، ہماچل پردیش ، جھارکھنڈ ، کیرالہ ، کرناٹک ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر ، اڈیشہ ، پنجاب ، راجستھان ، تمل ناڈو ، تری پورہ ، اتر پردیش ، اتراکھنڈ ، مغربی بنگال ، دلّی اور چنڈی گڑھ  جیسی ریاستوں کے کسانوں کو 6000 سےزیادہ پودے  سپلائی کئے ہیں ۔  500 سے زیادہ پیڑ  کرشی وگیان کیندروں اور راجستھان اور مدھیہ پردیش کے تحقیقی  اداروں میں  لگائے گئے ہیں  ، جو  شری کشن  نے خود ہی فراہم کئے ہیں اور 400 سے زیادہ  قلمیں راجستھان ، اتر پردیش ، مدھیہ پردیش اور گجرات کے مختلف تحقیقی اداروں کو فراہم کی گئی ہیں </span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"><br />
</span></span></p>
<div class="pt20" style="box-sizing: border-box; padding-top: 20px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px;">
 </div>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">نئی دلّی ،</span></span><span dir="LTR" style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">05</span></span><span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";"> اپریل /</span></span> <span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">راجستھان کے کوٹہ کے کسان شری کشن سمن ( 55 سالہ ) نے آم کی ایک نئی قسم تیار کی ہے ، جس میں آم کی پورے سال بہار آتی ہے ، جس کا نام سدا بہار رکھا گیا ہے اور یہ زیادہ تر بیماریوں اور آم کو ہونے والے  دیگر نقصان سے محفوظ رہتی ہے  ۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          یہ پھل لنگڑے کےمقابلے زیادہ میٹھا ہوتا ہے اور ایک بونی نسل ہونے کی وجہ سے کچن گارڈن  یا قریب قریب پیڑ لگانے کے لئے  موزوں ہے اور انہیں  کچھ سال کے لئے گملوں میں بھی لگایا جا سکتا ہے ۔  اس کے علاوہ ، اس کا گودا  گہرے نارنجی رنگ کا اور ذائقہ میں میٹھا ہوتا ہے اور اس کے گودے میں ریشے کم ہوتے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ دوسری نسل سے مختلف ہے ۔  اس نسل کے آم میں موجود  تغذیہ بخش اجزاء صحت کے لئے بہت مفید ہیں ۔ </span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          اس نسل کے آم کے پیچھے   غریب شری کشن کا ہاتھ ہے ، جو  دوسری کلاس کے بعد اسکول نہیں گئے اور انہوں نے اپنا  خاندانی  باغبانی کا پیشہ ( مالی ) اپنایا ۔ انہیں  پھولوں کو  اگانے  اور   باغبانی کے بندوبست میں دلچسپی تھی  ، جب کہ اُن کا خاندان   گیہوں اور  دھان بونے پر توجہ  دیتا تھا ۔  انہوں نے اِس بات کو محسوس کیا کہ گیہوں اور   دھان  جیسی فصلوں   میں کامیابی  کا انحصار بیرونی عناصر   جیسے بارش  ، مویشیوں  کے حملے وغیرہ پر ہے  ، جس سے  اُس کا منافع کم ہو جاتا ہے ۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          انہوں نے اپنے خاندان کی آمدنی  میں اضافہ کرنے کے لئے  پھول اگانا شروع کئے  اور سب سے پہلے  انہوں نے  گلاب کی مختلف  قسمیں  اگائیں اور  انہیں بازار میں  بیچا ۔ اس کے ساتھ ، انہوں نے آم اگانا بھی شروع کیا   ۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          سن 2000 ء میں ، انہوں نے اپنے باغ میں آم کا ایک درخت دیکھا ، جس میں  کافی تیزی سے بڑھت ہو رہی تھی اور جس کے پتے گہرے ہرے رنگ کے  تھے۔  انہوں نے محسوس کیا کہ یہ درخت پورے سال ہرا بھرا رہتا ہے ۔ اس خصوصیت کا مشاہدہ  کرنے کے بعد انہوں نے اِس درخت سے آم کی پانچ قلمیں لگائیں  ۔ اس قسم کو تیار کرنے میں  اور اس کی قلم لگانے میں  انہیں 15 سال کا عرصہ لگا ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ قلم والے  اِن پیڑوں پر دوسرے سال سے ہی  پھل آنے لگے ہیں ۔ </span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">          اس اختراعی قسم  کی تصدیق   بھارت کے نیشنل انوویشن فاؤنڈیشن ( این آئی ایف ) نے کی ہے ، جو حکومتِ ہند کے سائنس و ٹکنالوجی کے محکمے کا ایک خود مختار ادارہ  ہے ۔ این آئی ایف نے آئی سی اے آر – انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہورٹیکلچر ریسرچ ( آئی آئی ایچ آر ) ، بنگلور  کے ذریعے ، اِس کا تجزیہ کیا گیا اور  راجستھان کی ( جے پور ) ، جوبنر  میں ایس کے این ایگریکلر یونیورسٹی نے ، اِس کی فیلڈ ٹسٹنگ کی ۔ اب اِس قسم کو  پلانٹ کی ورائیٹی کے تحفظ اور کسانوں کے حقوق کے قانون کے تحت رجسٹر کرنے  اور نئی دلّی میں آئی سی اے آر کے نیشنل بیورو آف پلانٹ جینیٹک ریسورسز (این بی پی جی آر) میں رجسٹر کرنے کا عمل کیا جا رہا ہے ۔  این آئی ایف نے آم کی سدا بہار نسل  کی نئی دلّی میں  راشٹرپتی بھون کے مغل گارڈن میں  شجر کاری  میں بھی مدد کی ہے ۔ </span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">سدا بہار آم کی اِس قسم  کو تیار کرنے کے لئے شری کشن سمن کو  این آئی ایف کا نواں نیشنل گراس روٹ اننویشن اینڈ ٹریڈیشنل نالج ایوارڈ  سے نوازا گیا ہے  اور مختلف فورموں پر ، اِس کا اعتراف کیا گیا ہے ۔  این آئی ایف مختلف چینلوں  کے ذریعہ  کسانوں کے نیٹ ورک، سرکاری اداروں ، ریاستی زرعی محکموں اور رضاکارانہ تنظیموں وغیرہ کو ، اس بارے میں معلومات فراہم کرنے کی کوششیں کر رہا ہے ۔</span></span></p>
<p dir="RTL" style="box-sizing: border-box; margin: 0px 0px 10px; color: rgb(51, 51, 51); font-family: "Helvetica Neue", Helvetica, Arial, sans-serif; font-size: 14px; text-align: justify;">
<span style="box-sizing: border-box; font-size: 14pt;"><span style="box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq";">شری کشن سمن کو ہندوستان اور بیرونی ملکوں سے سال 2017 ء سے 2020 ء کے درمیان 8000 سے زیادہ سدا بہار کی قلموں کے آڈر موصول ہوئے ہیں ۔ انہوں نے 2018 ء سے 2020 ء کے دوران   مختلف ریاستوں  آندھرا پردیش ، گوا ، بہار ، چھتیس گڑھ ، گجرات ، ہریانہ ، ہماچل پردیش ، جھارکھنڈ ، کیرالہ ، کرناٹک ، مدھیہ پردیش ، مہاراشٹر ، اڈیشہ ، پنجاب ، راجستھان ، تمل ناڈو ، تری پورہ ، اتر پردیش ، اتراکھنڈ ، مغربی بنگال ، دلّی اور چنڈی گڑھ  جیسی ریاستوں کے کسانوں کو 6000 سےزیادہ پودے  سپلائی کئے ہیں ۔  500 سے زیادہ پیڑ  کرشی وگیان کیندروں اور راجستھان اور مدھیہ پردیش کے تحقیقی  اداروں میں  لگائے گئے ہیں  ، جو  شری کشن  نے خود ہی فراہم کئے ہیں اور 400 سے زیادہ  قلمیں راجستھان ، اتر پردیش ، مدھیہ پردیش اور گجرات کے مختلف تحقیقی اداروں کو فراہم کی گئی ہیں </span></span></p>
</div>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago