آفتاب سکندر
جب لوگ کہتے ہیں خدا دیکھ رہا ہے
میں سوچتا ہوں کیا دیکھ رہا ہے
یہ جو کچھ ہو رہا ہے. جو کچھ ہوتا آیا ہے۔ یہ سب رونے رلانے کا نام ہے۔مذمت کردی۔ لعنت بھیج دی۔ لعن طعن کردی،سب و شتم کردیا۔ حیف و ملال میں گریہ زاری کردی اور بات ختم!جون ایلیا نے درست کہا تھا کہ’’ہم تو ابھی اپنی قرون مظلمہ سے ایک قدم آگے نہیں بڑھے‘‘کس پر لعنت بھیجیں گے جس نے زینب جیسی گُڑیا پر درندگی دکھائی اور اس کی عصمت دری کی۔
اس وحشی پر لعنت بھیجیں گے جس نے موٹر وے پر عورت کی حرمت کا جنازہ نکالا۔اس کو یرغمال بنایا اور اس کی عصمت کو سبوتاژ کیا۔اس جنگلی درندے پر لعنت بھیجیں گے جس نے شیخوپورہ میں عزت اتاری۔اس پرلعنت بھیجیں گے جس نے بینک میں ملازمت کرنے والی عورت پر ہاتھ صاف کیا۔اس پر لعنت بھیجیں گے جس نے راہ چلتی عورت کو ہاتھ سے جنسی طور پر ہراساں کیا۔اس پر لعنت بھیجیں گے جس نے چھوٹی بچیوں سے چھیڑ خانی کی۔ اس پر لعنت بھیجیں گے جس کو بیچ سڑک کسی نوجوان نے تھپڑ مارے بھتیجی کے ساتھ زور زبردستی کررہا تھا۔
آخر کس کس پر لعنت بھیجیں گے؟
حمزہ علی عباسی نے کہا تھا کہ ہمارے پاسپورٹ پر کوئی تھوکتا بھی نہیں ہے۔میں اس میں اضافہ کرنا چاہوں گا کہ ’’ہمارے پاسپورٹ پر تھوکتا کوئی نہیں، موتتا (پیشاب کرتا) ہے۔
ہمارے سماج پر، ہماری معاشرتی تربیت پر، ہمارے معاشرے پر پیشاب کرنا چاہئے. ہم جتنے گر چکے ہیں ہمارے اوپر لعن طعن کی بجائے پیشاب پھینکنا چاہیے۔ہم گھٹیا ترین تھے، ہیں اور رہیں گے. ہمارا کوئی حل نہیں بس یہی حل ہے کہ ہم سب کو گٹر میں گلنے سڑنے کے لئے پھینک دیا جائے کیونکہ ہم بحیثیتِ معاشرہ دنیا کے لیے غلیظ ترین فُضلہ ہیں۔
دہر آشوب ہے سوالوں کا
اور خدا لاجواب ہے سو ہے
کبھی زینب کی عصمت دری ہوتی ہے۔ عمران نامی درندے کی سر عام پھانسی کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔کبھی موٹر وے پر کوئی عزت قربان ہوتی ہے۔ عابد علی کی گرفتاری کے لیے آہ و فغاں کرتے پھرتے ہیں۔سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو دن دیہاڑے قتل کردیا جاتا ہے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔
کیا ہوتا ہے کچھ بھی نہیں۔ چھ، چھ مرتبہ پھانسی کی سزا پانے والے مجرمان چند سال بعد شک کے شبہ پر رہا کردیئے جاتے ہیں۔بہر کیف یہ واقعہ علیشا کا واقعہ لکھنے کے قابل نہیں۔تصور میں لانے لائق نہیں ہے۔کیونکہ ایک چار سالہ بچی نے ہم سب کی شلوار اتار دی ہے۔سندھ حکومت نے بہرحال نوٹس لے لیا ہے۔ اس میں اے ایس آئی محمد بخش کو بھی کریڈٹ دینا بنتا ہے جنہوں نے اپنی بیٹی کو پیش کرکے یہ کارروائی عمل میں لائی اور ملزمان کو گرفتار کر لیا۔
پولیس میں بے شک اچھے افراد کی کمی ہوگی مگر ایسا نہیں ہے کہ ایسے افراد ناپید ہوچکے ہیں۔ ان صاحب نے تو محکمے کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔پھر بات آتی ہے سندھ حکومت کی جس نے قوم کی بیٹی کے لیے دس لاکھ روپے کا اعلان کیا ہے اور اس کے ساتھ سویلین ایوارڈ دینے کے لیے سفارش بھی کی ہے۔ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ مجرمان کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…