شاہ خالد مصباحی
چیرمین: کے وائی سی فاؤنڈیشن ، سدھارتھ نگر
آزادیِ ہند کے امرت دور سے گزرتے باشندگان وطن کے مابین ، ایک ایسی قوم بھی اپنے زندہ رہنے کا دم بھر رہی ہے، جس کے اوپر ظلم و ستم کی ایک داستان ، مذہبی ، ثقافتی تنازعات کا ایک الگ باب ، تعلیمی پسماندگی اور سماجی مفسدات کا ایک الگ خاکہ ، ہندوستان میں بنام مسلمان اپنی وجود سے لے کر اب تک کا ہر حصہ ، اس قسم کی خرابیوں سے پاک کرنے کی دوہائی مانگ رہا ہے ۔
دہشت گرد ، چوری ، بدمعاشی ، نشو خوری ، نا خواندگی ، تفرقہ بازی ان جیسے غیر اتفاقی ، غیر اخلاقی معاملات ، حساس مسائل کو جب بھی اکثریتی طور اس کو اٹھایا گیا تو اس کا رابطہ اس مظلوم قوم یا اس کے متبعین سےحتمی طور پر جوڑکر ۔۔چاہے وہ حکومت یا کسی شعبہ کی سیاسی سازش ہوں یا اس کے در پردہ کوئی اور متعلقہ راز۔
اس ملک میں یہ ایک عام ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ جب ٹی وی چینلوں کے پاس کوئی خاص متضاد موضوع نہیں رہتا ہے تو ، مدارس کے بچے ایڈمینیشٹریشن کا حصہ کیوں نہیں بنتے ، آئی ، ایس ، پی ، سی ، ایس ، آئی ، ایف آر وغیرہ بن کر کیوں نہیں نکلتے۔۔۔۔۔؟
ان جیسےسارے موضوعات کو خاص سازش اور پلان کے تحت چلاتے ہیں اور مشہور چہرے ، نا م کے مولویوں کو ڈیبیٹ پر بیٹھا کر،ملک کی فضا کو ایک خاص قومکے تئیں مذموم بناتے ہیں ۔
کچھ ایسا ہی معاملہ گزشتہ چند سالوں سے ، جو سال ٢٠١٨/ عیسوی سے مزید زور پکڑے ہوئے ہے کہ یوپی سمیت ملک کے مختلف ریاستوں میں مدارس سروے ، مدارس میں طلبا کے ڈریس کے لیے پینٹ شرٹس کی باتیں، ان کے داڑھی ، ٹوپی ، قرآن پڑھنے ، پڑھانے ، ان کے مولوی بننے پر اعتراض قائم کیا جانا ، اور اس میں ترامیم کی باتیں ،حکومتی اور غیر حکومتی شعبوں کے تحت میٹینگ و سروے قائم کرکے بے جا تنقید و تحقیق کا موضوع بنایا جانا ، ایک معمولی سی ، عام بات بنتیں چلیں جا رہی ہیں ۔
جیسے کہ ٤/ جولائی ٢٠١٨ / عیسوی کو یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ جی نے ریاستی مدارس کو ہر لحاظ سے دوسرے تعلیمی اداروں کے برابر لانے کے اہداف کے ساتھ ، اس کو لاگو کرنے کی باتیں کیں، اور اسی میٹنگ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قد آور لیڈر جناب محسن رضا صاحب کہتے ہیں’’ مدارس میں طلبا سفید کرتہ پائجامہ پہنتے ہیں، جو ایک خاص عقیدے کی عکاسی کرتا ہے ۔ ان کی اس بات کو دی ہندی نیوز پیپر سمیت ملک کے بیشتر اخبار و رسائل نے جگہ بھی دی۔ اور بعض قوم کی طرف سے خوب سراہا گیا اور بعض کی طرف سے اس بیان کی خوب شب و تشنیع بھی کی گئی‘‘۔
آنجناب پارٹی کے اصولوں اور آقاؤں کے حکم کی فرمانبرداری کرنے میں اتنے مد ہوش ہوگئے کہ ان کو مدارس کا بنیادی مقصد اور یہ مدرسے کیا کسی قوم کی ثقافت کے مظاہرے ہیں یا نہیں؟ اتنی سی بھی بات یاد رکھنے کے قابل نہ رہے ، یہ تو ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ ویشنوزم، شیو مت، شکت مت، گنپتی ازم، وغیرہ کے سبق اور پاٹھ لینے والے طلبا صرف بھگوا ہی یا ثقافتی لباس ہی کیوں پہنتے ہیں؟ ان کو ٹوپی ، کرتا ، پائجامہ پہننا چاہیے، تاکہ کسی خاص قسم کی یا کسی خاص مذہب کی عکاسی نا ہو سکے اور پورے طور سے اقوام کے مابین مساوات کا پیمانہ قائم رہے، جو کہ بالکل محال ہے ۔
بتادیں کہ آدی شکراچاریہ نے پورے ملک میں اپنے ادویت فلسفے کی تبلیغ کے لیے چار مٹھ قائم کیے تھے ، جو آج بھی شنکراچاریہ کی اس چارقسموں کو سنسکرت پٹھسالہ اور دیگر ناموں سے قائم ادارہ جات میں ، ان کے طلبا کو ایک خاص ڈریس کے ساتھ مزین کرکے، سکھایا، پڑھایا جاتا ہے۔ صدیوں میں 6 / فلسفے (شاد درشن) پروان چڑھے۔ فلسفے کے یہ 6 / مکاتب درج ذیل ہیں۔
سانکھیا (بذریعہ سیج کپل)
یوگا (بذریعہ پتنجلی)
نیایا (سیج گوتم)
وشیشیکا (بذریعہ مہارشی کناد) – جس نے ایٹم کا نظریہ دیا (انو)
میمنسا – پوروا میمانسا (جیمنی کے ذریعہ) اور اتر میمنسا (بھدرائن)
ادویت
یہ سارے فلسفیانہ أصول اور طریقہ کار ویدک دور اور ہندو مذہب سے متعلقہ ہے، جس کو فروغ دینے کے لیے ان سارے مذہبی اداروں جیسے آدتیہ واہنی۔ اکھل وشوہندو ایکتا منچ۔اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد۔اکونیر نامگھرامریکی مراقبہ انسٹی ٹیوٹ۔آنند آشرما۔آنند مارگا- پرکارکا سمگھا۔ آنند ورلڈ برادرہڈ کالونیز سمیت ملک اور بیرون ملک بہت سی ایسی تنظیمیں ہیں جو ان کو فروغ دینے میں گورنمنٹ سمیت بھر پور مدد و تعاون کرتے ہیں ۔
لیکن سب سے تعجب خیز امر یہ ہے کہ آج تک ان کے تعلیمی نصاب ، ڈریس کوڈ ، ورزش ڈریس کوڈ ، سروے ، سی بی آئی کے چھاپے ، پولیس کی جانچ و پڑتال ، فنڈ کا محاسبہ ، اساتذہ کا استحصال، طلباء پر دہشت گرد ہونے ، برمائی، یا آسٹریلیائی ادارے ہونے کا الزام ، یکطرفہ تہذیب و ثقافت ، مذہبی کتابوں کے پڑھانے پر سوال ؛ کسی قوم یا حکومت کے ارباب اور دیگر مخیر حضرات کی طرف کیوں نہیں کیا / اٹھایا گیا ، آخر ان مٹھوں میں قرآن و حدیث کی تعلیم یہاں کیوں نہیں دی جاتیں ہیں ؟
یہاں سے نکل کر لوگ صرف ویدک اور سادھو ہی کیوں بنتے ہیں ، مولوی ، مولانا کیوں نہیں بنتے ؟
ان اداروں نے آج تک اس ملک کو کتنے ڈاکٹرز ، اسکالر ، ریسرچر ، ایڈمینیشٹر دیے ، آخر یہ سوال ملک میں کیوں نہیں ہوتا ؟ اور آخر مدرسہ بورڈ ہی کو کیوں اس بات کی فکر لاحق ہے کہ قرآن کی تعلیم پڑھ کر ، کرتا پاجامہ پہن کر لوگ دہشت گر بن رہے ہیں ؛ اس ضمن میں حقیقی بات تو یہ ہے کہ یہ سارے اراکینِ بورڈ یا تو مدرسے کی ماضی اور حال کے اجلے اوراق اور اس کی تاریخ سے روشناس نہیں ، اگر حقیقی نظروں سے اس چیز کا مطالعہ کیے ہوتے تو مدارس اپنے اہداف کے ساتھ ساتھ ملک کے ہر مسئلے تئیں ہمیشہ اپنے افراد ، فرزندانوں کی قربانیوں کو پیش کیا ہے اور انہیں مدرسے کے پڑھے افراد نے ہر طرح کی مسلح افواج ، اس ملک کی بقا کی خاطر تیار فرمائیں، اور اس ملک کی ہر ، ملکی سطح پر آذادی حاصل کرنے اور سماجی مفسدات کو دور کرنے کے خاطر چلنے والی کامیاب تحریکیوں میں کسی نا کسی مولوی کا ہاتھ رہا ہے ، اور آج بھی اس ملک کے اکثریتی اداروں یا سینٹرل تعلیمی اداروں کے بنیاد گزار اور محافظ ، مدارس کے فرزندان اور اسی شمع سے فیض یاب چراغ رہے ہیں ، اور یہی مدرسیں، انگریزوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب، ان کے عزمو استقلال ، جہد و جہد کو پست کرنے والی ذرائع ، آذادی کی لڑائی میں ثابت ہوئے ، جیسا کہ 1857کی عظیم بغاوت کے مختلف مراحل کے دوران ہندوستان کے لیے لڑنے والے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مدرسہ کے علماء کی تعداد نصف ملین سے زیادہ ہے۔
اور مولانا آزاد کے “الہلال” کے مطابق حضرت مجدد الف ثانی، مولانا اجمل خان، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، علامہ انور شاہ کشمیری، اشفاق اللہ خان ، مفتی عنایت احمد کاکوروی ، علامہ فضل حق خیرآبادی ، سر سید احمد خان ، ڈاکٹر زاکر حسین ، منشی پریم چندر ، مولانا حسرت موہانی، اور شاہ عبدالرحیم رائےپوری سبھی مدارس کی پیداوار تھے۔ جنہوں نے انگریزوں کا خوب مقابلہ کیا، اور جن کے ہی محنتوں و مشقت سے اس گلستانِ خزاں کو دوبارہ شادابیاں حاصل ہوئیں ۔
لیکن افسوس!
اقلیتی طبقوں کے حق و حقوق سمیت ان کے ثقافتی ورثہ اور زبان کے فروغ و تبلیغ کے اداروں پر مشتمل بد زبانیں، طریقہ کار میں چھیڑ چھاڑ، ان کے کھانے سے لے کر پہناوے تک آکر ، الزام ڈالنے ، تغیر و تبدل کی باتیں زوروں پر ہیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں ، جیسا کہ اتر پردیش کی حکومت حالیہ ، بروز بدھ / تاریخ اکیس دسمبر ٢٠٢٢/ عیسوی ، پھر اس معاملے کے تئیں کافی حرکت میں نظر آ رہی ہے، جس میں دیگر اسکولوں کی طرح مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے لیے شرٹ ٹائی اور پینٹ کے ڈریس کوڈ کو نافذ کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں ۔ یوگی حکومت نے مدارس کے بہت سے اصولوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ لکھنؤ میں منعقدہ مدرسہ بورڈ کی میٹنگ میں تمام مدارس کے ڈریس کوڈ کے ساتھ ہفتہ وار تعطیل کے حوالے سے کئی اہم فیصلے لیے گئے ہیں، جو یوپی کے تمام تسلیم شدہ مدارس پر لاگو ہوگا۔ یہ اجلاس مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر افتخار احمد جاوید کی سربراہی میں منعقد ہوا۔
آخر اقلیت کے اداروں کے ساتھ حکومت کی اتنی خیر خواہی کیوں ؟
یہ بات واضع طور سے دیکھی جارہی ہے کہ ارباب حکومت خطرے کی سیاست کھیل رہے ہیں، اور مدارس کے مقاصد اور اس کی تہذیب و تمدن کو ملیا میٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم آہنگی برقرار رہے، ورنہ نقصان صرف ہمیں ہی کو پہنچائے گا اور کسی کو نہیں، اس ملک میں جتنی بھی قومیں ہیں سب کے سب ڈائیریکٹ یا انڈایرکٹ طور پر ، اپنے کلچرل ، مذہبی ریتی و رواج کو پڑھانے کے لیے ، بے شمار ادارے کھولے ہوئے ہیں ، اور اس کے پس پشت ان کے بے شمار طاقتیں ہیں جو ان کی محافظت کے لیے تیار ہیں ، اور جو اپنے اپنے مذہب کے پرچار و پرستار میں ان ریکارڈ لگے ہوئیں ہیں ، اور ان سے اسی خاص مذہب ہی کے رہنما ، رہبر ، مذہبی گرو بن کر نکل رہے ہیں لیکن آج تک کسی کو کسی سے تکلیف نہیں ہوئیں اور حکومت کے کسی بھی فرد میں سوال کرنے کی جسارت بھی پیدا نہیں ہوئیں سوائے ، مدارس سے ، چہ عجب احمقایی است!
اب اگر ان صاحبان کے ہی نظریات پر عمل کرتے ہوئے ، اور مدارس کے مقاصد سے صرف نظر کرتے ہوئے ، ہم ایسے ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تبدیلی لاتے رہیں ، تو ضرور حکومت سمیت ارباب مدارس ، مخیران قوم و ملت کو اس بات کی بھی فکر ہونی چاہیے کہ اس قوم کی مذہبی مراسم کی ادائیگی کے لیے کیا پنڈت ، سادھو ، برہمنوں کو لایا جائےگا؟
یہ بات مدرسہ بورڈ کے چیئرمین جناب افتخار جاوید صاحب کے لیے بھی واضح کردیتے ہیں کہ مدارس کے طلبا ، وہ آئین کو شرعی قانون سے بدلنے کے لیے نہیں پڑھ رہے ہیں۔ وہ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے پاس آرکیسٹریٹ کرنے، سازش رچنے اور اپنے ہی لوگوں کی جان لینے کا وقت نہیں ہے۔ تاہم جو بات انہیں بار بار بتائی جاتی ہے، سکھائی جاتی ہے اور درحقیقت ان کے ذہنوں میں ڈالی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ”ظالم کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکیں۔ وہ اپنی رہنمائی قرآن سے اخذ کریں، اور لوگوں کو نصیحت کریں کہ اللہ کی ہدایت پر عمل کرکے اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں مدد کریں، جو مدارس کا اساسی مقصد ہے ۔
اب بات جب یہاں تک ہو ہی گئی ہے تو یہ ہم صرف پر ضروری ہے کہ آئیے جانیں کہ مدارس کا لباس کوڈ کے تعلق نظریہ کیا ہے ۔
مدارس ڈریس کوڈ
یہ بات واضح رہے کہ مدرسے کا بنیادی مقصد قرآن و سنت کا فروغ ہے اور اس کے مطابق لوگوں کو زندگی گزارنے کا پابند کرانا ہے ۔ اب اسلام کے ڈریس کوڈ کے نظریہ کے بارے میں بات کریں تو سارے فقہاء / اسکالرز اس بات پر متفق ہیں کہ مرد کے لیے ناف اور گھٹنوں کے درمیان کے حصے کو عورت کہتے ہیں، جس کا چھپانا ضروری ہے ، اور عورت کے لیے عورت کی تعریف چہرے اور ہاتھوں کے علاوہ پورا جسم ہے، جس کا چھپانا ضروری ہے ۔
اب چھپانے کے متعلق بھی چار ضروری باتیں ہیں:
انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے چھپانے کے اجزاکو پوری طرح ڈھانپے۔
کپڑے اتنے ڈھیلے ہونے چاہئیں کہ وہ اس سے جسم کے اجزا کی وضاحت نہ ہوں۔
کپڑے کافی موٹا ہونا چاہئے تاکہ جلد کے رنگ یا ڈھکنے کے لیے ضروری حصوں کی وضاحت نہ ہو۔
کپڑیں توجہ مبذول کرنے کے طریقے سے ڈیزائن نہیں کیا جانا چاہیے۔شائستگی اور ’’نمائش‘‘ سے گریز کا بنیادی اصول تمام مومنین کے مردوں اور عورتوں پر لاگو ہوتا ہے۔
یہ اسلام اور مدارس کے ڈریس کوڈ کا بنیادی نظریہ ہے جس پرطلبا مدارس ، اساتذہ، ملازمین عمل پیرا ہوتے ہوئے آرہے ہیں ، اور اس قسم کی لباس کی آذادی آئین بھی دیتا ہے حتی کہ مدارس ، آئین کا حصہ ہیں ، جو کسی بھی صورت میں غیر آرام دہ اور غیرسکون لباس و ماحول کی اجازت نہیں دیتے۔
مدارس تعلیم کے اغراض و وجوہات
ظاہر ہے کہ اس ملک میں مدارس کے ساتھ بہت سے ، بے شمار ادارے اپنے اپنے مقاصد کے تحت چل رہے ہیں، اور مدرسہ کی تعلیم کا جو مقصد ہے وہ دینیات کے طالب علم کو سائنس دان، انجینئر، ڈاکٹر یا کسی دوسرے پیشہ ور کے درجے تک اپ گریڈ کرنا نہیں ہے، طلباء کے والدین جان بوجھ کر اپنے بچوں کو یہ جانتے ہوئے بھی مدرسہ میں داخل کرواتے ہیں کہ انہیں کوئی سائنس ، ارتھولوجسٹ میں فائدہ حاصل نہیں ہوگا، وہ تو ایک عالم دین ، مذہبی گیان کے لیے انہیں مدارس میں بھیجتے ہیں ۔ اگر ان کے والدین کو یہی سارے علوم حاصل کرانے ہوں یا جس بھی طالب علم کو یہ سارے علوم حاصل کرنے ہوں ، تو پھر وہ بچے ، ان کے والدین ، اپنے بچوں کو مدرسہ ہی کیوں بھیجتے ؟ اس ملک میں ان سارے علوم اور ان مقاصد کے تئیں ڈے شمار ادارے چل رہے ہیں ، وہاں جاکر وہ ایڈمیشن لیں اور اپنے مقاصد کو پورا کریں ۔
مدارس میں بچوں کے داخلہ دلانے کی مندرجہ ذیل وجوہات بھی ہیں:
(1)ان کا مذہبی عقیدہ درست اور اس کو مذہب کے بارے میں علم حاصل ہوجائے ۔
(2)ان کو یہ یقین ہے کہ مدارس بہت سی خامیوں کے باوجود ان کے بچوں کو اخلاقی اور سماجی اقدار سکھانے کے لیے اب بھی بہترین جگہ ہیں۔
(3) مدارس کے طلبا معاشی طور پر نسبتاً غریب ہوتے ہیں، دنیاوی حکمت کی کمی کے لحاظ سے سادہ لوح ہوتے ہیں، اور درجہ یا مقام میں پست ہوتے ہیں تاہم وہ تقابلی طور پر قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔
(4) والدین کی مالی پریشانی بھی اس طرف رغبت ترین ہونے کی ایک خاص وجہ ہے ،اس سوچ کے ساتھ کہ وہ اسکول کی فیسیں برداشت نہیں کر سکتے، اپنے بچوں کو دین کا کچھ علم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ میں داخل ہونے پر مجبور کریں تاکہ یہ نجات کا ذریعہ بھی بن سکے، اور علم سے آراستہ بھی ہوجائیں۔
سارے سوالات اور مدارس کے تئیں سارے خلجانوں کی وضاحت پیش کرنے کے بعد ، ہر سوال اٹھانے والوں کو ، یا جس کسی کے بھی دماغ میں اس قسم کی مضمرانہ باتیں اب بھی چل رہے ہوں ، تو یہ فکری انحرافات کے ساتھ معاہدہ اور منہج غیر کی پیروی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ مدرسہ بورڈ اور اربابِ حکومت کو ضرور اس پر غور کرنا چاہیے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…