محمد عباس الازہری
مروجہ جلسوں میں شعرا حضرات “حمد باری تعالی” بہت کم ہی پڑھتے ہیں ! اب دھیرے دھیرے “نعت شریف” نہ پڑھ کر”منقبت ” کی طرف آ رہے ہیں اور پہلے کے بزرگوں کی شان میں “منقبت ” پڑھنے کے بجائے “ماضی قریب کے بزرگوں ” کی شان میں ” دُھن والے اشعار ” پڑھ رہے ہیں ۔
لوگ پسند بھی خوب کر رہے ہیں،دھیرے دھیرے مروجہ جلسوں کا مزاج بدلتا جا رہا ہے! اور پوسٹروں میں ” علامہ و مفتی” سے کم کوئی نظر نہیں آتا!اب تو ہر مشہور عالم ،مفتی,قاری اور پیر کا عرس ضروری ہے! جس طرح انڈیا میں معیاری و مرکزی تعلیمی ادارے تین چار ہیں ورنہ گلی گلی مدارس ہیں،پہلے جب دستار بندی ہوتی تھی تو بہت لوگ بہت خوش ہوتے تھے اور اب تو چھوٹے مدارس والے کسی بھی کہیں سے کوئی طالب جائے اس کا داخلہ لے کر دستار بندی دے دیتے ہیں اس لیے تقریبا زیادہ تر پوسٹر میں “دستار بندی ” لکھا جانے لگا
،اسی طرح ” جنتری ” اٹھا کر دیکھیں تو کسی دن “عرس مبارک ” سے خالی کوئی تاریخ خالی نہیں پہلے کسی بڑے بزرگ کا جب عرس ہوتا تھا تو لوگ اس میں شرکت کے لیے مہینوں تیاری کرتے تھے لیکن اب ان کے گھر کے قریب عرس مبارک ! اس میں زیادہ تر پیشہ ور مقررین,و شعرا اور پیر مزے میں ہیں ! اور صرف درس و تدریس اور تصنیف و تالیف سے منسلک حضرات مادی اعتبار سے خسارے میں ہیں۔
کتاب لکھ دیتے ہیں اور چھپوانے کے لیے مذکورہ پیشہ ور حضرات کا سہارا لیتے ہیں! اسی لیے برصغیر میں اہل سنت و جماعت جدید طرز پر کتب و رسائل سے خالی دامن ہے! اسٹیج پر کامیاب ہونے کے لیے زیادہ سے زیادہ تین تقریر اور کسی پیر کے دامن کو تھامنا بہت ضروری ہے.اور شعراء گانے کے طرز پر تین چار منقبت یاد کر لیں اور جہاں جائیں وہاں کے بزرگ کے نام پر پڑھنے لیں پھر نوٹوں کی بارش شروع ہوجاتی ہے,زیادہ تر جلسوں میں سامعین کی صفوں سب سے آگے بیٹھنے والے ” جذباتی نوجوان ” ہوتے ہیں جو نعرہ بازی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اور جلسوں میں زیادہ تر شعراء کو ہی پرموٹ کرتے ہیں. جس کاخوب فائدہ شعرا اٹھاتے ہیں ! اور زیادہ تر مقررین “رٹا مار ” والے ہوتے ہیں یہ بھی خوب کامیاب رہتے ہیں.
اور منتخب عنوان پر تقریر کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں اور یہ سامعین کو مطمئن بھی نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ سامعین کو” کڑک ,گرج ,دھڑک ,لطیفہ باز”مقر چاہیے ,اس کو مواد سے مطلب نہیں ہے اس لیے “حضرت مفتی نظام الدین رضوی مصباحی حفظہ اللہ ” ختم بخاری کرا سکتے ہیں لیکن تقریر کرنے کے لیے سامعین نہیں بلاتے ہیں ! جب قوم کا مزاج بگڑتا ہے تو اس کا خمیازہ سبھی کو بھگتنا پڑتا ہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…