آفتاب سکندر
میرا قلم منصف ہے مصنف کا عقائد نہیں حقائق لکھتا ہے۔ میرا لکھا گیا ایک ایک حرف معاشرتی درد کی عکاسی کرتا ہے۔ میں نے ابلاغِ سائنس کی طرف قدم بڑھائے تو مجھے نظر آیا کہ یہاں تو شخصیت پرستی کے بُت اور مینار کھڑے ہیں۔
مجھ میں اک تڑپ سی اُٹھتی ہے کہ بُت شکن بنوں بُت پرست نہ بنوں میرا قلم بُت شکن ہے بُت پرست نہیں۔اُس کے حق سے غرض ہے تمھارے یقین سے نہیں۔
خطہ برِصغیر کے سب سے بڑے شاعر علامہ اقبال تھے۔ اُن کے بعد کوئی بڑا شاعر پیدا نہیں ہوسکتا۔ یہ کہنا اپنے آپ میں ایک بہت بڑا جرم بلکہ کفر ہے۔ معاذاللہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات اُن سے بڑا شاعر پیدا نہیں کرسکتی کیا؟
اُن کی شاعری قرآن مجید فرقان حمید کتابِ کریم کلامِ عظیم کا ترجمہ ہے۔ یہ جملہ اکثر و بیشتر سننے میں آتا ہے۔حیرت کی بات ہے پورے قرآن میں کہیں بھی ملکہ الزبتھ کی قصیدہ گوئی نہیں ملتی حالانکہ اُن کے کلام میں ملکہ الزبتھ کی قصیدہ گوئی شامل ہے۔
ہمارے ہاں یہ روایت مشہور ہے دو کو چار بنانا، چار کو سولہ بنادینا،یہ روایت عمومی روایت ہے۔ہم نے شخصیت پرستی کے بُت کھڑے کر رکھے ہیں اور ان بتوں کے خلاف ایک لفظ سننا بھی ہمیں گوارہ نہیں۔
جس نے سائنس کی تعلیم ہی حاصل نہیں کی، ایف اے، بی اے کیا، اُس کے پاس سائنس کا کونسا علم ہونا ہے مگر ہم ہیں کہ جامعات میں باقاعدہ پروگرام منعقد کروا رہے ہیں۔ کانفرنسیں کررہے ہیں۔تقاریب کا اہتمام کررہے ہیں کس بات کے موضوع پر۔ اقبالیات کی سائنس کے موضوع پر،اقبال سائنس دان تھے بالکل نہیں، قطعی نہیں۔
پھر کس منہ سے اُس کو سائنس دان ثابت کرنے کی کاوشیں جاری و ساری ہیں، کیوں اقبالیات کی سائنس کا رونا رویا گیا،وہ شاعر تھے،فلسفی تھے سائنس دان کب سے ہوگئے۔
اُن کو سائنس دان ثابت کرنے کی سعی کرنا سائنس کی تعلیم و تعلم کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کے مترادف ہے۔محسنِ پاکستان ڈاکٹر پرویز ہود بھائی صاحب نے اس پر احسن طریقے سے لیکچر دیا ہے اور اپنی تحقیق پیش کی ہے۔
علامہ اقبال صاحب اپنی تصنیفReconstruction of religious thoughts in Islam میں صفحہ نمبر 37 پر کچھ اس طرح سے گویا ہوئے ہیں کہ
Scientific materialism has ended in a revolt against the matter. The concept of the matter has received the greatest blow from the hand of Einstein
اب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صاحب فرما رہے ہیں کہ آئین سٹائین نے تردید کی مادہ کی، غالباً بلکہ قوی امکان ہے کہ وہ مشہورِ زمانہ مساوات
E=mc^2
کی تفہیم کو مادہ کی نفی سمجھ رہے ہیں۔ حالانکہ
E=mc2
مشہورِ زمانہ مساوات کا اصل مطلب یہی ہے کہ مادہ کو توانائی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس کلیہ کے تحت کمیت کو ہم توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال ایٹم بم کی تشکیل میں مادہ کی جوہری توانائی میں تبدیلی ہے۔
جوہری عملِ انشقاق اور جوہری عملِ ایتلاف میں یہی کچھ ہوتا ہے۔
پوزیٹران اور الیکٹران کے تعامل سے فوٹان حاصل ہوتا ہے.جس سے (annihilation of matter) بولتے ہیں۔ اس کے علاوہ mass defect and binding energy یہ دو عوامل بھی اس کی مثال ہیں۔
توانائی کو مادہ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ ادارہ میکس پلانکس کے ایک طبعیات دان نے یہ تصور پیش کیا کہ فوٹانز کو تعامل کے نتیجے میں ذرات اور ضد ذرات (Particles and anti-particles) تشکیل پاسکتے ہیں۔
اس کے لیے تصوراتی تجربہ کیا جس میں الیکٹرانز میں لیزر کی وساطت سے اسراع (acceleration) پیدا کر کے ان کی رفتار روشنی کے رفتار کے برابر لائی جاتی اور ان کے ٹکراؤ سے روشنی کی شعاع پیدا کی جا سکتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے گو کہ یہ تصوراتی تجربہ تھا۔
تو علامہ اقبال صاحب جنہوں نے ایف اے، بی اے کیا تھا انہوں نے تو سائنس نہیں پڑھی پھر اُن کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ وہ جید ترین سائنس دانوں کے متعلق رائے قائم کرتے پھریں۔
’’زندہ رود‘‘ کتاب ہے جس میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال نے علامہ اقبال صاحب کی بات لکھی ہے کہ وہ آئن سٹائین کی اضافیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ تو ہم لوگوں نے صدیوں پہلے ایجاد کر رکھا ہے تو جناب ہمارے علامہ اقبال صاحب کی ہی دریافت کردہ روایت ہے جس پر ہماری قوم چل رہی ہے جو نئی چیز دیکھی کہہ دیا کہ ہمارے اجداد کی ایجاد کردہ یا دریافت کردہ ہے۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے معمہ ہے جس پر حیف و گریہ زاری کے عالم میں غرق ہونے کے سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری قومی سوچ کا میلان کیا ہے اس پر ہم سوائے افسوس کہ کچھ نہیں کرسکتے۔
جامعات میں تقریبات کس منہ سے منعقد کی گئیں۔ محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ اقبالیات سائنس ہے حد ہوگئی ہے۔ ہم خود حیران ہیں کہ یہ ہو کیا رہا ہے ہم کر کیا رہے ہیں۔ ہمیں بہت سنجیدگی سے فراغدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس متعلق سوچنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ہاں حر حرکیات کے دوسرے قانون سے ناواقف سائنس دان ہیں۔ کبھی ہمارے ہاں صدیوں پہلے رد شدہ نظریات لکھنے والے کے مطابق زمین ساکن ہے۔ آخر مسئلہ کیا ہے۔ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہم بحیثیت قوم مَن حیث القوم ایسے معاملات کو الجھانے کی کاوش کرتے ہیں۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…