فکر و نظر

مقبول نغمہ نگار اور شاعر: جاوید اخترؔ

اعجاز زیڈ ایچ

آج 17؍جنوری 1945معروف شاعر جاں نثار اخترؔ کے بیٹے،مقبول نغمہ نگار اور شاعرجاوید اخترؔ صاحب کا یومِ ولادت ہے۔

جاوید اختر، 17؍جنوری 1945 کو  سیتا پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جاں نثار اختر بھی اردو کے ممتاز شاعر تھے ۔ جاوید اختر کا بچپن سے ہی شاعری سے گہرا رشتہ رہا ہے ۔

 انہوں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ بہت قریب سے دیکھے ہیں اس لئے ان کی شاعری میں زندگی کو بڑی شدت سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نغموں کی یہ خوبی رہی ہے کہ وہ اپنی بات بڑی آسانی سے دوسروں کو سمجھا دیتے ہیں۔

انہوں نے اپنی میٹرک کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی اس کے بعد بھوپال کے صوفیہ کالج سے گریجویشن کیا لیکن کچھ دنوں بعد وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے لئے 1964 میں ممبئی آگئے اور محض 100 روپے کی تنخواہ پر فلموں میں ڈائیلاگ لکھنے کا کام کرنے لگے ۔ اس دوران انہوں نے کئی فلموں کے لئے ڈائیلاگ لکھے لیکن ان میں سے کوئی بھی فلم باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوئی۔

ممبئی میں جاوید اختر کی ملاقات سلیم خان سے ہوئی اور دونوں نے مشترکہ طور پر کام کرنا شروع کردیا۔ 1970 میں جلوہ گر فلم ’انداز‘ کی کامیابی کے بعد اس جوڑی نے کئی اچھی فلموں میں بطور ڈائیلاگ رائٹر کام کیا اور کامیاب ہوئے۔

ان میں ’ہاتھی میرے ساتھی، سیتا اور گیتا، زنجیر، یادوں کی بارات‘ جیسی سپرہٹ فلمیں شامل ہیں۔ 1987میں فلم ’مسٹر انڈیا‘ کے بعد سلیم جاوید کی سپرہٹ جوڑی الگ ہوگئی اور جاوید نے فلموں کے لئے ڈائیلاگ لکھنے کا کام جاری رکھا ۔

 انہیں 8 مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔1999 میں ادبی دنیا میں بیش قیمتی تعاون کے مدنظر انہیں پدم شری ایوارڈ سے اور 2007 میں پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

 فلم ساز، بارڈر، گاڈمدر، رفیوجی اور لگان کے لئے نیشنل ایوارڈ یافتہ جاوید اختر آج بھی بطور نغمہ نگار بالی وڈ میں سرگرم ہیں۔

معروف شاعر جاوید اختر کے یوم پیدائش پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت۔۔۔

جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا

مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا

ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا

کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے

مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے

کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا

اونچی عمارتوں سے مکاں میرا گھر گیا

کچھ لوگ میرے حصے کا سورج بھی کھا گئے

اس شہر میں جینے کے انداز نرالے ہیں

ہونٹوں پہ لطیفے ہیں آواز میں چھالے ہیں

یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا

کل رستے میں اس نے ہم کو پہچانا تو ہوگا

میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا

وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا

تب ہم دونوں وقت چرا کر لاتے تھے

اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

9 months ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

9 months ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

9 months ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

9 months ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

9 months ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

9 months ago