ذوالفقار علی بخاری
سہ ماہی سرائے اُردو کا حال ہی میں ’’کتاب نمبر‘‘ کے نام سے خاص شمارہ منظرعام پر آیا ہے۔ یہ بے حد منفرد اوراہمیت کا حامل موضوع ہے جس پر دورحاضرمیں کام کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سہ ماہی سرائے اردو کا یہ اولین شمارہ ہے جو کہ خاص نمبر کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔دورحاضرمیں نہ صرف بچے بلکہ بڑے کتب سے دوری اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے میں کتاب کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے ’’خاص نمبر‘‘کی اشاعت تاریخ ساز کارنامہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ سہ ماہی سرائے اردو کی مجلس مشاورت میں دنیائے اردو کی نام ور ہستیاں خان حسنین عاقب، ڈاکٹر رمیشا قمر اور عسکر واسطی شامل ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔
بچوں کے معروف ادیب دانیال حسن چغتائی بطور مدیر جب کہ فاکہہ قمر اور بہرام علی وٹو معاون مدیران میں شامل ہیں۔ فاکہہ قمر اس سے قبل گلدستہ ٹوٹ بٹو ٹ جونئیر میں بطورمعاون مدیرہ کے کام کر چکی ہیں ۔راقم الحروف کو سہ ماہی سرائے اردو کے لیے بطور مدیر اعلیٰ کام کرنے کا موقع ملا ہے۔
’’ کتا ب نمبر‘‘کے اداریے میں دانیال حسن چغتائی فرماتے ہیں:
’’یہ شمارہ کتاب نمبر کے عنوان سے معنون کیا گیا ہے اور اس میں کتب بینی کو فروغ دینے کے حوالے سے مختلف کہانیاں اور مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ ہم نے پوری کوشش کی ہے کہ کتب بینی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ اسی مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے سرائے اردو پبلی کیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور اب تک اٹھارہ کتب شائع ہو چکی ہیں۔‘‘
اسی شمارے میں شامل دانیال حسن چغتائی اپنے مضمون ’’ کتاب کی اہمیت ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اُن معاشروں کو ہوتا ہے جو پسماندگی سے گزر کر ترقی کے معراج پر پہنچے ہوں، جتنا کوئی معاشرہ استعمار کی سازشوں اور فکری پسماندگی کا شکار ہوتا ہے اتنا ہی وہ معاشرہ کتاب دشمن ہوتا ہے۔ ایک بات مسلمہ ہے کہ سماجی ارتقاء اورانسانی شعور کی پختگی میں جتنا کردار کتاب کا ہوتا ہے شائد اس کا کوئی اورنعم البدل نہیں ۔‘‘
فراز علی حیدر کی مختصر کہانی’’کتابیں بھیج دیں‘‘اپنے موضوع کے اعتبار سے بے حد خاص ہے۔مجھے یقین ہے کہ پڑھنے والے اس سے ضرور محظوظ ہوں گے۔
بھارت سے تعلق رکھنے والے نام ورشاعر اور ادیب خان حسنین عاقب کی نظم ’’ کتابیں تیری ساتھی ہیں، کتابوں سے محبت کر‘‘کتاب نمبر کی سب سے خاص نظم ہے جس میں کتابوں سے محبت بڑے دل چسپ اور خوب صورت انداز میں بیان کی گئی ہے۔
کتابیں تیری ساتھی ہیں، کتابوں سے محبت کر
کتابوں سے گلے مل اور دل سے ان کی چاہت کر
کتابیں ذہن و دل کے سارے پردے کھول دیتی ہیں
کبھی جو کہہ نہیں سکتے کتابیں بول دیتی ہیں
ترے دل پر ہے، تو چاہے تو تقلیدِ روایت کر
کتابیں تیری ساتھی ہیں، کتابوں سے محبت کر
زہرا دستگیر کے قلم سے نکلی کہانی’’ میرا دوست‘‘میںخوب صورت پیغام پڑھ کر دل باغ باغ ہوا ہے،اسے قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔
’’ یہ کتابیں ہی ہوتی ہیں جو ہماری باتیں سمجھتی ہیں جس سے ہم سیکھتے ہیں اورشعور حاصل کرتے ہیں۔جو ہمارے مشکل وقت میں علم دے کر ہمیں دشواری سے بچاتی ہیں۔‘‘
’’ اد ب کا قاری کتاب کا مطالعہ کیسے کرے؟‘‘کے عنوان سے جو تحریر اس خاص نمبر کا حصہ ہے ۔اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
’’ہر کتاب کو پڑھنے کا معیار ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ کتابیں سطحی فکر کے حامل ہوتی ہیں جنہیں پڑھنے کے لیے غور و فکر نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی گہری توجہ مرکوز کرنا پڑتی ہے۔ اس کی مثال کچھ یوں پیش کی جا سکتی ہے کہ اخبار اور صحافتی سطح پر لکھے جانے والے کالم کی زبان سادہ ہوتی ہے اور ہم آسان اور سادہ لفظوں میں اخبار کے ذریعے خبر کو اور کالم کے ذریعے سیاسی تجزیوں کو بآسانی سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن اخبار میں استعمال ہونے والے لفظوں کے ذریعے آپ خواب نہیں دیکھ سکتے، لطف اندوز نہیں ہوسکتے اور نہ ہی آپ اس قسم کی تحریر کے انداز سے لذت کیفیت حاصل کر سکتے ہیں جو بعض اوقات زیر لب مسکراہٹ، سنجیدگی کے احساس اور غم کے گہرے شعور کا باعث بنتی ہے۔اسی طرح بہت سی کتابیں معلومات کی فراہمی کا باعث تو بنتی ہیں مگر گہرا احساس پیدا نہیں کرتیں۔ ادبی تحریروں پر مشتمل کسی بھی کتاب میں آپ کو معلومات کے علاوہ سماجی، معاشرتی اور سیاسی مسائل بھی نظر آئیں گے۔ تاریخی واقعات ہوں یا نفسیاتی مسائل ادب ہر گہرے شعور اور موضوع خیال کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ‘‘
’’ای بکس ‘‘کے نام سے حمیر ا علیم کی کہانی بہت کچھ سوچنے پر مائل کرتی ہے ۔ مصنفہ کئی موضوعات پر بہت دلکش انداز میں تبلیغ کرتی نظر آتی ہیں ۔اس خاص نمبر میں ان کی تحریر قابل تعریف ہے۔
’’لوگ آج بھی کتاب پڑھنا پسند کرتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اب لوگ موبائل، لیپ ٹاپ اور کمپوٹر پر انٹرنیٹ سے ڈاون لوڈ کر کے یا ای لائبریریز سے کتب پڑھنے لگے ہیں۔”
مصطفی ملک’’ کتاب میری بہترین دوست‘‘ نامی مضمون میں لکھتے ہیں:
’’عملی زندگی میں قدم رکھا تو نصابی کتب کو ہم نے طلاق دے دی اورغیر نصابی کتب نے ہم سے خلع لے لی۔ دن رات کی محنت سے پیسے تو ملنے لگے مگر ایک تنہائی اور کمی کا احساس ہمیشہ دامن گیر رہتا، دوستوں کو آگے پڑھتے دیکھتے تو نصابی کتب کی یاد ستاتی اور جب کسی محفل میں کسی کتاب سے متعلق بحث سننے کو ملتی تو دل کرتا، ابھی جا کر خرید لوں مگر افسوس کہ فکر روز گار نے سارے لطیف جذبوںکا قتل کر دیا۔‘‘
’’کتابوں سے عشق ہے توکتب زمین پر کیوں؟‘‘جیسے اہم موضوع پر ذوالفقار علی بخاری( راقم الحروف) لکھتے ہیں:
’’ افسوس کی بات ہے کہ ہم یا کوئی بھی ایسا فرد جوکتب سے محبت رکھتا ہے وہ دنیا سے گزرتا ہے یا پھرمطالعے سے باغی ہو جاتا ہے تو پھر اس کی کتب زمین پررکھی جاتی ہیں اورفروخت ہوتی ہیں۔ یہ برسوں سے ہو رہا ہے اورہوتا چلا جا رہا ہے۔ہم اپنے معاشرے میں نہ تو آج تک کتب کو وہ اہمیت دے سکے ہیں جو ان کا حق بنتا ہے اور نہ ہی اُن ادیبوں کو دیتے ہیں جو ہماری زندگی کا دھارا بدلنے کے لئے ایک کے بعد ایک کتاب سامنے لاتے ہیں ۔‘‘
محمد حسنین کچھ یوں اپنے مضمون ’’ ذکر کچھ کتاب کا‘‘ میں بیان کرتے ہیں:
’’کتاب کی دوستی کا نعم البدل کچھ بھی نہیں۔ کتابیں بہت forward straight ہوتی ہیں انہیں منافقت نہیں آتی ،یہ اس وقت بھی ساتھ دیتی ہیں جب ساتھ دینے کے لئے کوئی بھی نہ ہو۔ کتاب علم ہے ادب ہے تہذیب ہے اور ہنر ہے۔ میرا یقین ہے کہ کتاب لکھنا اگر ہنر ہے تو کتاب پڑھنا بھی ایک ہنر ہے۔‘‘
توقیر چغتائی ایک اہم موضوع’’کتاب اور صاحب کتاب ‘‘ پر کچھ سمجھاتے نظر آتے ہیں۔
’’جو مصنفین مختلف اداروں اور دوستوں کو اپنی کتاب بلامعاوضہ پیش کرتے ہیں ان کا علمی اور ادبی جذبہ قابل ستائش ہے، مگر ایک اندازے کے مطابق مفت میں حاصل کی جانے والی کتاب کی نسبت خریدی ہوئی کتاب زیادہ پڑھی جاتی ہے، اس لیے کہ جو کتاب خریدی جاتی ہے اس کی ضرورت ہوتی ہے اور جو مفت میں دی جاتی ہے اسے تحفہ سمجھ کر قبول تو کرلیا جاتا ہے لیکن پڑھنے کے لیے وقت نہیں نکالا جاتا۔‘‘
انصار احمد معروفی جو کہ بھارت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی کتاب کے حوالے سے نظم’’ کتاب نمبر‘‘ کا حصہ ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ سہ ماہی سرائے اُردو کے اولین شمارے میں شاعری کا انتخاب بھارتی شعرا کا ہے۔
اچھی کتابیں
کیا خوبصورت
جیسے کہ مورت
ہر حصہ رنگیں
صفحات رنگیں
ہونٹوں سے چوموں
دل سے لگاؤں
’’ اپنی عمر سے بڑا کون ؟‘‘ایک دل چسپ اور مزے دار کہانی ہے جو عطاء السلام سحر نے لکھی ہے ۔اس کا ایک جملہ بہت متاثرکن ہے۔آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
’’ وہ دس کتابوں کی لائبریری والا جس نے گیارہویں کتاب ہمارے گھر سے حاصل کی وہ آج بازی لے گیا۔ اب بھی کہو نا! موبائل تو اپنا یار ہے۔‘‘
’’سیرابی کا ذریعہ ‘‘ایک فکر انداز مضمون ہے جسے سیدہ حفظہ احمد نے لکھا ہے ۔اس کا اقتباس پیش خدمت ہے:
’’آپ نے سنا ہوگا کہ ایک زرخیر زمین بہت فائدہ دیتی ہے، مگر شرط یہ ہوتی ہے کہ اس کو پانی سے سیراب کیا جائے یا اس کے لیے پانی مہیا ہوجائے۔ وہ بارش کی صورت میں ہو یا پھر کسی اور ذریعے سے۔ پانی ملنے کے بعد زمین اپنے وقت پر پھل لے آتی ہے یا وہ ہری بھری ضرور ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ایک انسان زرخیز زمین کی طرح ہے اور کتابیں اس کے لیے سیرابی کا ذریعہ ہیں۔ جس طرح ایک زرخیز زمین کو نشوونما اور پھل کے لیے پانی دینے کی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح کتابیں انسان کی زندگی میں ایک چمن کی طرح ہوتی ہیں، جو انسان میں جینے کا ہنر اور سلیقہ اجاگر کرتی ہیں۔‘‘
’’ 2 اپریل ۔ بچوں کی کتب کا عالمی دن‘‘کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں فاکہہ قمر کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
’’چھوٹی عمر میں ہی کتاب سے دوستی ہو جائے تو انسا نی سوچ کے دھارے ہی بدل کر رہ جاتے ہیں۔‘‘
’’کتاب سے محبت ‘‘کے عنوان سے لکھے مضمو ن میں عروشمہ خان عروش لکھتی ہیں:
’’ اگر ہم ترقی کی راہ پر گامزن ہونا چاہتے ہیں تو لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں جس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہو جائے وہاں علم کی پیداوار بھی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘
’’مطالعہ کتب کی اہمیت‘‘جو کہ حافظ محمد معاویہ آصف کی تحریر ہے ۔ اس میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اچھی کتابیں زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں، کتاب انسانی مزاج میں نرمی پیدا کرتی ہے ذہن پر خوشگوار اور صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مطالعے سے انسان کے اندر مثبت اور مضبوط سوچ پیدا ہوتی ہے۔ ‘‘
العرض سہ ماہی سرائے اردو کا ’’ کتاب نمبر‘‘ بچوں اور بڑوں کو کتب سے دوستی کروانے کی ایک لاجواب کوشش ہے ۔23اپریل کو کتب کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سرائے اُردو پبلیکیشن، پاکستان کا اس موقع پر کتاب نمبر کی اشاعت یقینی طور پر بہت سے بچوں اوربڑوں کو کتاب دوستی پر مائل کرے گا۔جو احباب گھر بیٹھے اس خاص نمبر کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ براہ راست سرائے اُردو پبلیکیشن، پاکستان 03017795847 ) واٹس ایپ نمبر(سے منگوا سکتے ہیں۔اس کی قیمت محض ایک سو روپے ہے۔اس خاص نمبر کو کتب خانوں میں خرید کر ضرور عطیہ کیا جانا چاہیے تاکہ مستقبل میں کتاب کی اہمیت کے حوالے سے خاص نمبر ایک حوالے کے طور پر کام آتا رہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…