فکر و نظر

ایودھیا میں مسلم امیدوار کی جیت شدت پسند عناصر کے منھ پر طمانچہ

ڈاکٹرساحل بھارتی

ہندستان محبت کی سرزمین ہے۔لیکن کبھی کبھی  ملک کے کئی حصوں میں فرقہ واریت کی وجہ سے ماحول خراب کیا جاتا رہا ہے لیکن اسی وقت کئی جگہ سے ایسی خبریں بھی آئی ہیں جو تقویت دیتی ہیں۔ پچھلے ایک مہینے میں اتر پردیش اور کرناٹک کے انتخابات میں سیاسی حلقوں کی غیر فیصلہ کن صورت حال اور پریاگ راج کا ایک واقعہ سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ابھی بھی ہندو مسلم اتحاد باقی ہے، کچھ شدت پسند عناصراپنے فائدے کے لئے ماحول کو خراب کرنے میں لگے ہوئے تھے لیکن ناکام ہوئے۔

انتخابی  نتائج کے دن الیکشن کے نتیجے کے ساتھ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نتیجہ بھی سامنے آیا جو انتہائی چونکا دینے والا اور دل کو چھو لینے والا بھی تھا۔ اتر پردیش کے مذہبی شہر ایودھیا میں سلطان انصاری نے ایودھیا میونسپل کارپوریشن کے کونسلر کے عہدے کے لیے بلدیاتی انتخابات میں پہلی بار قسمت آزمائی، الیکشن کا نتیجہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ وہ جیت گئے ہیں۔

رام جنم بھومی کے قریب ہندو اکثریت والی نشست وارڈ میں ایک اور آزاد امیدوار ناگیندر مانجھی کو 442ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ ووٹ فیصد کے حساب سے اس وارڈ میں صرف 440مسلم ووٹرز ہیں جبکہ ہندو برادری کے 3844ووٹرز ہیں۔ یہاں 10امیدوار میدان میں تھے۔ انصاری کو کل 2388ووٹوں میں سے 996ووٹ ملے جو تقریباً 42فیصد بنتا ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس سیٹ پر حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی تیسرے نمبر پر رہی۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق سلطان انصاری نے جیت کے بعد کہا، ”یہ ایودھیا میں ہندو مسلم بھائی چارے اور دونوں برادریوں کے پر امن بقائے باہمی کی بہترین مثال ہے۔ ہمارے ہندو بھائیوں کی طرف سے کوئی جانبداری نہیں تھی اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے کوئی اور نہیں سمجھا، کسی دوسرے مذہب کا آدمی نہیں سمجھا، اسی احساس نے میرا ساتھ دیا اور میری حجت کو یقینی بنایا“۔  وارڈ کے ایک مقامی باشندے انوپ کمار نے کہا کہ ”ایودھیا کو باہرے سے دیکھنے والے لوگ سوچتے ہیں کہ ایودھیا میں مسلمان کیسے ہوسکتا ہے لیکن اب وہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان نہ صرف ایودھیا میں امن وامان کے ساتھ رہتے ہیں بلکہ الیکشن بھی جیت سکتے ہیں۔

ایودھیا کے ایک تاجر سوربھ سنگھ نے کہا ”ایودھیا رام مندر کے لیے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے لیکن یہ مذہبی شہر مسلمانوں کے لیے اتنا ہی مقدس ہے جتنا کہ ہندوؤں کے لیے ہے، یہاں بزرگوں کے پرانے مقبرے بھی ہیں۔یہ انتخابی نتیجہ صرف کسی ایک انتخاب سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ براہ راست پیغام دیتا ہے کہ اعلیٰ سطح پر چاہے کتنی ہی نفرت کی تاریخ لکھی جائے لیکن زمینی سطح پر آج بھی ہندو مسلم اتحاد ابھر رہا ہے اور اس کی پرانی روایت جاری ہے۔ اور یہ دل کو گرما دینے والی خبر ہر اس شخص کے لیے باعث فخر ہے جو ہندو مسلم اتحاد دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے کوشاں ہیں۔

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago