فکر و نظر

عورت:شام کا اخبار : شورش کاشمیری

(شورش کاشمیری کی کتاب ”اُس بازار میں ‘‘ سے اقتباس)

انتخاب ۔ ڈاکٹر مہوش نور

شورش کاشمیری ایک طوائف زادی کا انٹرویو  لے رہے تھے۔ بے باک طوائف بولی ، ”یہاں عورت عورت نہیں شام کا اخبار ہوتی ہے. جس کے پاس طاقت ہو وہ عورت کو خرید سکتا ہے‘‘۔

شورش نے کہا ، ”حکومت کچھ نہیں کرتی ؟؟ “

وہ ہنس پڑی اور بولی ، ”آپ صحافی ہو کر انجان بنتے ہیں. کیا حکومت کے لیے اور تھوڑے کام ہیں ؟؟ یہ اخلاقی مسئلہ ہے اور اس کا تعلق پورے معاشرے سے ہے‘‘۔

شورش نے کہا ، ”حکومت کے بھی تو کچھ فرائض ہوتے ہیں؟“

جی ہاں کیوں نہیں؟ وہ اپنے فرائض کو بڑی خوبی سے پُورا کرتی ہے۔ مثلاً قلعہ کی سیڑھیوں پر لیاقت علی خان نے سلامی لی تھی تو قلعہ کی سیڑھیوں پر جو قالین بچھائے گئے تھے وہ ہمارے مکانوں سے ہی گئے تھے۔جب کبھی قلعہ سے باہر یا قلعہ کے اندر کوئی سرکاری تقریب ہوتی ہے تو قالین ہمارے ہاں ہی سے جاتے ہیں۔

شورش بولے ، ”اوہو یہ تو ایک خبر ہے“

طوائف بولی ، ”خبر کیسی؟ راعی کا رعایا پر حق ہوتا ہے ہمیں تو سرکاری دنگل کے لیے بھی ٹکٹ خریدنے پڑتے ہیں“

شورش سادگی سے بولے ، “آپ لوگ انکار کیوں نہیں کر دیتے؟؟“

“خوب! آپ بھی ہوا میں گِرہ لگا رہے ہیں. ہمیں تو بعض تھانیداروں کے مہمانوں کے لیے بستر بھی بھیجنے پڑتے ہیں ایسا نہ کریں تو ہمارا کاروبار ایک دن میں ٹھپ ہو جائے۔ ہم لوگ عیبوں کی گٹھڑیاں ہیں جو شخص بھی یہاں آتا ہے وہ اخلاقی چور ہوتا ہے۔ پولیس سے جھگڑا مول لے کر بھوکوں مرنے والی بات ہے بلکہ قید ہونے والی بات ہے‘‘۔

یہ طوائف زادی جس کی غیر معمولی متاثر کن گفتگو پڑھ کر دِل رنجیدہ ہو گیا جس کی قسمت اُسے اور اُس کے پُورے خاندان کو تقسیمِ ہند کے بعد کوٹھے پر لے آئی۔ والد پٹیالہ کے بڑے زمیندار تھے جن کے پاس تین سو بیگھے بارانی اور تین سو پینسٹھ بیگھے نہری زمین تھی۔

ماں نے کیمپ میں دَم توڑا۔ اور والد کی عمر اَسی برس ہو چکی تھی۔ اُن پر یہ رَحم ہوا کہ بیچارے اُس وقت اندھے ہو گئے جب یہ کہانی جنم لے رہی تھی اور یوں اپنی بچیوں کی حالت کو دیکھنے سے معزور رہے۔

خوب بولی کہ پاکستان تو خدا لایا تھا ، اِس بازار میں پیٹ لے آیا۔ یہاں لانے کا انتظام تو لیاقت علی خان کی بدولت اسپیشل ٹرین کے ذریعے ہوا تھا۔

شورش نے طوائف زادی سے آخری سوال کیا کہ ، ”اگر تمہیں ملک کا وزیراعظم بنا دیا جائے تو تم کیا کرو گی؟“

وہ مسکرائی اور کہا ، ”میں سب سے پہلے تمام نشے بند کر ڈالوں گی “شراب ،  چرس ، بھنگ ، افیون ، چانڈو”, اس لیے نہیں کے شرعاً حرام ہے۔ اِس لیے کہ اُن کے استعمال سے جوان ، جوان نہیں رہتا“

شورش اور اُن کی ٹیم بے اختیار ہنسی۔

طوائف زادی بولی معاف کیجیے گا ، ”ہر قوم کی عزت اُس کے جوان ہوتے ہیں. میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ سو میں سے ستّر ، چہروں سے تو جوان ہیں لیکن اُن کی ہمتیں بُوڑھی ہو چکی ہیں‘‘۔

Dr M. Noor

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

9 months ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

9 months ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

9 months ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

9 months ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

9 months ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

9 months ago