ڈاکٹر عبد الحئی
اردو زبان نے اپنے آغاز سے ہی اپنی دلکشی برقرار رکھی ہے اور اردوداں برادری کے ساتھ غیراردو داں حلقے میں بھی اپنی اہمیت تسلیم کراتی رہی ہے۔ اردو زبان جاننے سمجھنے اور پڑھنے والا ہو یا صرف لفظ اردو جاننے والا ، وہ اتنا تو ضرور جانتا ہے کہ اردو بڑی میٹھی اور اچھی زبان ہے۔ شعر و شاعری، عشق و عاشقی کی زبان ہے۔ جو غنائیت اور حسن اس زبان میں ہے وہ کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔
آج یہ اردو کا ہی جادو ہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ امریکہ، کناڈا، برطانیہ، جاپان، چین، ماریشس اور دیگر ممالک میں مشکل حالات کے باوجودلوگ اس زبان کی جانب کھنچے چلے آرہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ تقسیم کے بعد اردو کی حالت بہت خراب ہوگئی تھی اور اس زبان کی بقا کا مسئلہ پیدا ہوگیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وقت و حالات بہتر ہوئے اور پھر اردو نے جینا سیکھ لیا۔ اردو کو دوسری زندگی دینے والے قابل تعریف ہیں جو مشکل وقت میں بھی اردو کی مشعل جلائے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اردو کی ترویج و ترقی کا راز اس کی تعلیم میں پنہاں ہے۔ جب تک اردو کا نیا قاری نہیں پیدا ہوگا اردو سمٹتی چلی جائے گی۔
اردو زبان نے اپنے آغاز سے ہی اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ملک کی آزادی کا معاملہ ہو یا عوام کے درمیان محبت و اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کی بات ہو۔ہر ایک مقام پر اردو زبان کا کردار نمایاں اور ممتاز نظر آتا ہے۔اردو زبان کبھی پورے ملک میں لنگوافرینکا کے طور پر مقبول تھی اور ملک کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو یہ زبان سیکھنے بولنے میں فخر محسوس کرتا تھا لیکن ملک کی آزادی اور تقسیم ہند کے بعد اس زبان کو بھی مذہب کے دائرے میں تقسیم کردیا گیا جس سے اس زبان کا جتنا نقصان ہوا اس کا کوئی حساب نہیں۔
ترجیحات کا تازہ شمارہ پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں
ایک وقت تھا کہ اس زبان میں مذہب ودینیات، ویدک ادب، معاشیات، صنعت و حرفت، سیاسیات،سائنس و ٹکنالوجی اور دیگر موضوعات پر کتابیں دستیاب تھیں اور اس کے لیے سرسید کے سائٹفک سوسائٹی، دارالترجمہ عثمانیہ جیسے اداروں کا نام لیا جاسکتا ہے۔بعد کے دنوں میں بھی اس سلسلے میں کافی پیش رفت ہوئی لیکن رفتہ رفتہ یہ زبان ایک محدود دائرے تک سمٹ کر رہ گئی ۔
رسم الخط کے قضیے نے اسے مزید کمزور کردیا۔ ملک کی آزادی سے کچھ پہلے اور اس کے بعد باضابطہ ایک مہم چھیڑدی گئی کہ اردو کا رسم الخط دیوناگری کردیا جائے۔ راہی معصوم رضا، مجروح سلطان پوری، عصمت چغتائی، سجاد ظہیر جیسے مقتدر ادیبوں نے بھی دیوناگری اسکرپٹ کی حمایت کردی لیکن کچھ سنجیدہ ادیبوں نے اردو رسم الخط کی بقا کے لیے اخباروں میں جرائد میں مسلسل مضامین لکھے اور اس سلسلے میں ہونے والی ہر کوشش کو ناکام کردیا۔مولوی عبدالحق، سہیل عظیم آبادی، کلام حیدری، مسعود حسن رضوی ادیب وغیرہ کی کوششوں سے اردو رسم الخط اپنی اصل شکل میں قائم رہا۔اردو رسم الخط کی خوبصورتی سے انکار ممکن نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہندی کے ادیب ڈاکٹر پرکاش مونس نے لکھا تھا:
رسم الخط زبان کی روح نہ سہی لیکن محض لباس بھی نہیں ہے۔ وہ اس کا قفس عنصری ہے پھر اردو ہندی کا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ کہیں کہیں تو ان میں صرف رسم الخط کا ہی پردہ باقی رہ جاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں ذرہ برابر جھجھک نہیں ہے کہ اگر اردو نے اپنے رسم الخط کو چھوڑکر دیوناگری یا رومن رسم الخط اختیار کیا تو اس کی موت یقینی ہے ۔
(بحوالہ ڈاکٹر پرکاش مونس۔ اردو ادب پر ہندی کا اثر،اردو اکیڈمی، اترپردیش،1978 ص۔646 )
اسی طرح ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے معروف افسانہ نگار اور ادبی صحافی کلام حیدری نے اردو کا رسم الخط دیوناگری کردینے کی وکالت کرنے والوں کے خلاف اپنے رسالے آہنگ میں کئی اداریے لکھے اور بہار میں 1980 میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے اداریے کا ایک اقتباس دیکھیں:
اردو کو اپنے رسم الخط کے ساتھ زندہ رہنے، ترقی کرنے اور اپنے حقوق کی حفاظت کا جمہوری حق حاصل ہے۔ جو چند ادیبوں کے دیناگری میں لکھنے کی وجہ سے مالی منفعت حاصل کرلینے سے ختم نہیں ہوسکتا ہے اور نہ اس کا تخلیقی ادب اتنا گھٹیا ہے کہ یہ تعداد سے مرعوب ہوکر دیوناگری کا نقاب اوڑھ لینے ضرورت محسوس کرے۔ اردو کا نام اردو اس کے رسم الخط کے ساتھ ہے۔
(ماہنامہ آہنگ،اپریل 1971 )
حقیقت بھی یہی ہے کہ اردو زبان کا رسم الخط اس زبان کی روح ہے۔ روح کے بغیر جس طرح جسم بے جان ہوجاتا ہے ویسے ہی رسم الخط کے بغیر یہ زبان بے جان ہوجائے گی۔ ہمارے وزیراعظم عزت مآب نریندر مودی جی نے بھی 2019 میں اردو رسم الخط کی خوبصورتی سے متاثر ہوکر کہا تھا کہ اردو کا رسم الخط اس کا حسن ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے۔ اردو زبان نہ صرف ایک مقبول زبان ہے بلکہ یہ ہندوستان کی خوبصورت گنگا جمنی تہذیب کی علامت بھی ہے۔
آج ہم ہر دن ایک نئی تبدیلی سے روبرو ہورہے ہیں اور ہمارے اوپر مشینوں نے قبضہ کرلیا ہے۔1970 میں Alvin Toffler نے اپنی کتاب Future Shock میں لکھا تھا:
بیسویں صدی کے اواخر میں مستقبل سے انسان کا ایسا سامنا ہونے جارہا ہے کہ اس کے صدمے سے اس کے ذہنی توازن کو بگڑنے کا خطرہ ہے۔مستقبل میں ناخواندہ انسان وہ نہیں ہوگا جس نے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا ہوگا بلکہ وہ ہوگا جو یہ نہیں جانتا کہ تعلیم کس طرح حاصل کی جائے اور جس میں کچھ بھی سیکھنے کا جذبہ نہیں ہوگا۔تبدیلی ایک ایسا عمل ہے جس سے مستقبل ہمارے اوپر حاوی ہوتا ہے اور ہم وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
جب یہ باتیں لوگوں نے پڑھیں تو انہیں حیرت ہوئی کہ ایساکیسے ممکن ہے۔ نئی اطلاعاتی ٹکنالوجی، ترسیلی ٹکنالوجی، کمپیوٹر، الیکٹرانک میڈیا، سٹیلائٹ،ویڈیو کانفرنسنگ،تھری جی، فورجی اور اب فائیو جی ٹکنالوجی وغیرہ کے گلوبل دور میں انسان کی حیثیت اور صورت حال کیا سے کیا ہوگئی یہ کسی نے بھی نہیں سوچا تھا بلکہ اب تو ان سب سے ایک قدم اور آگے بڑھ کر ورچوئل ریئلیٹی یعنی حرکی حقیقت کا بھی خواب شرمندہ تعبیر ہورہا ہے۔اس میں مشینوں کی مدد سے انسانی دماغ کو ہوا کے دوش پر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جاتا ہے اور انسان وہی سب کچھ محسوس کرتا ہے جو اس نے خوابوں میں سوچا تھا یا جسے کرنے کی پانے کی اس نے تمنا کی تھی۔میٹرکس سیریز اور حال ہی میں آئی فلم اوتار 2 اور اس سے قبل اوتار 1 اس کی بہترین مثالیں ہیں۔آج آلون ٹافلر کی بات حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔
آج ہم جس دور سے گذر رہے ہیں اس میں ہر نیا لمحہ ایک نئی تبدیلی لے کر آرہا ہے اس لیے ایسے بدلتے دور میں ہمیں ٹکنالوجی اور اس کی اہمیت کو پہچاننا ہوگا اور اپنی زبان اور اس کے رسم الخط کی بقا کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اس کا استعمال کرنا چاہیے اور اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم سوشل میڈیا پر، انٹرنیٹ پر زیادہ سے زیادہ اردو رسم الخط کا استعمال کریں تاکہ یہ زبان مزید مضبوط ہوسکے اور پوری دنیا میں اس زبان کو مقبولیت حاصل ہو۔
موجودہ دور میں کچھ ایسے بھی دانشور ان اردو موجود ہیں جو اردو کے شاعروں، ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں لیکن ان کے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ پر یا ان کے واٹس اپ گروپ چیٹ پر اردو ندارد ہوتی ہے اور جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اردو کلیدی تختہ نہیں ہے۔ ایسا کہہ دینے سے وہ اپنی ذمے داری سے عہدہ برآنہیں ہوسکتے۔اگر وہ اردو کے ادیب و شاعر ہیں تو ان کی تحریروں میں ، تقریروں میں ان کی پوسٹوں، ای میلز میں اردو تحریر نظر آنی چاہیے۔
آج انٹرنیٹ نے ہماری زندگی کو ہر طرف سے اپنے حلقے میں کر لیا ہے ۔مواصلاتی انقلاب نے علم و ادب کے نئے پیمانے وضع کرنے کے لئے ہمیں مجبور کیا ہمیں نئے مواقع عطا کئے تاکہ مختلف نقطہ نظر سے اور اندازو اسلوب سے کام کی گنجائش پیدا ہو ۔ یہ بھی سچائی ہے کہ مواصلاتی انقلاب کے پہلے دنیا کچھ دوسری تھی اب یہ بدل کر دوسری ہو گئی ہے اور اس دوسری دنیا میں اردو کو بچانے کی ہم سب کو اپنی اپنی سطح پر کوشش کرنی ہوگی۔
ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم کسی غیر اردو داں کو اردو زبان اس کے رسم الخط کے ساتھ سکھائیں گے اگر ہم نے چند لوگوں کو بھی اردو سکھادی تو یقیناً اس زبان کو ایک نئی زندگی مل جائے گی۔ اردو کا نیا قاری اور نئی نسل کی اردو سے وابستگی اردو میں نئی جان پھونک سکتی ہے۔
سال 2022 کا یہ آخری شمارہ آپ سب کی خدمت میں حاضر ہے۔ یہ سال جہاں وبا کے بعد زندگی میں در آئی تبدیلیوں کے لیے یاد رکھا جائے گا وہیں یہ سال سیاست ، ادب اور سماج سے جڑے مختلف واقعات کے لیے بھی یاد رکھا جائے گا۔ سری لنکا کا سیاسی انتشار، ملکہ الزبتھ دوم کا انتقال،جاپانی وزیراعظم کا قتل، روس یوکرین جنگ ، ایران میں حجاب مخالف مظاہروں وغیرہ کے لیے بھی یہ سال یادکیا جائے گا۔
اس سال ہندوستان میں پہلی دفعہ کسی قبائلی خاتون کو ملک کے سب سے بڑے عہدے پر منتخب کیا گیا اور عزت مآب دروپدی مورمو نے ملک کی دوسری خاتون صدر کے طور پر حلف لیا۔اگر ادب اور ثقافت کی بات کریں تو اس سال ہم نے بڑی اہم شخصیات کو کھودیا جن کی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی ان کی جگہ نہیں لے سکتا۔ یہ سال اس لیے بھی بہت برا رہا کہ لتا منگیشکر جیسی شہرہ آفاق اور بلبل ہند نے اس فانی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔
ان کے ساتھ ساتھ اس سال ہمیں داغ مفارقت دینے والوں میں ڈاکٹر نادر علی خاں،گوپی چند نارنگ، اسلم آزاد،جعفر رضا، مینیجر پانڈے،پروفیسر اصغر عباس، مولانا سید جلال الدین عمری، حبیب ہاشمی، اشرف استھانوی،پروفیسر سیما صغیر، سالک دھامپوری،کرامت علی کرامت، بھوپندر سنگھ،ونود دوا،حسین الحق، مظفر حسین سید، ابراہیم اشک،بپی لہری،احسان بھارتی،ڈاکٹر فضل الرحمان شرر مصباحی،شیو کمار شرما،، عطیہ نشاط،خالد عابدی، خورشید سمیع،احمد سعید ملیح آبادی، رباب رشیدی، رفعت عزمی،پروفیسر بی شیخ علی ، شموئل احمدبھی شامل ہیں۔ یہ سبھی لوگ اپنے میدان کے آفتاب اور ماہتاب ہیں اور ان کے جانے کا ہمیں شدید غم ہے۔ ادارہ ترجیحات ان تمام اور دیگر مرحومین کے تئیں اظہار تعزیت کرتا ہے۔
ترجیحات کے گزشتہ شمارے کو امید سے بڑھ کر پزیرائی ملی۔ نعت پر خصوصی گوشے کا ہمارے قارئین نے جس طرح والہانہ استقبال کیا اس نے ہمیں مستقبل میں مزید گوشوں اور خصوصی نمبر شائع کرنے کا حوصلہ عطا کیا ہے۔ہم اپنے قارئین کے ممنون ہیں کہ انھوں نے ہماری اس کوشش کو شرف قبولیت بخشا۔ترجیحات کے موجودہ شمارے میں بھی ہندو اور سکھ شعرا کی نعت گوئی پر ایک مضمون شامل ہے۔
مرزا غالب کے دینی عقائد اور ان کے شعری ادب اطفال پر بھی مضامین ہیں۔کرشن چندر اور کشمیری ثقافت ،تربیت العشاق،کشمیر کی یوگنی اور ہندوستان کی آزادی اور اردو صحافت پر بھی معیاری تحریریں شامل شمارہ ہیں۔تخلیقی حصوں میں افسانوں اور شاعری کے انتخاب میں بھی معیار پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ امید ہے کہ یہ شمارہ بھی آپ کو پسند آئے گا۔ شمارے پر اپنی رائے اور قیمتی مشوروں سے ضرور نوازیں۔
ہمیں آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…