صغری یامین،لاہور
جس طرح کسی انسان کو پہچاننے کیلئے اس کا انداز وبیان دیکھاجاتا ہے،اور پھر سامنے والا اس کی گفتگو سے اس کی قابلیت کا اندازہ لگالیتا ہے۔تو اسی طرح جہاں الفاظ انسانی زندگی میں ربط و ترسیل اور افہام کے سلسلے قائم کرتے ہیں ،تووہاں ان کی ترتیب اور استعمال کے قرینے میں انسان کی ذہنی ترقی اورو عروج کی داستان پوشیدہ ہے۔ الفاظ کوئی جامداورٹھوس شے نہیں ہوتے بلکہ ہرعہدمیں ان کی شکل اور ہیئت بدلتی رہی ہے۔
خاص طورپر جہاں انھیں ادبی تخلیق کے لیے استعمال کیاگیا ہے تو وہاں یہ تخلیق کار کے مزاج اور طرز احساس کے مطابق نیارنگ اختیارکرتے رہے ہیں۔ جس طرح سائنس کے تجربات کی صداقت اس کے اشاروں اورعلامتوں میں پنہاں ہوتی ہے۔ اسی طرح شاعری اور ادب میں بھی انسانی تجربات کی صداقت اس کے رموز، کنایوں اور علامتوں کے ذریعے عیاں ہوتی ہے،اسی طرح انڈیا کے مایہ ناز شاعر ذکی طارق کے دل میں عوام الناس کی فکروہمددری کا جذبہ ان کی شاعری میں دیکھا جاسکتا ہے ان کی شاعری الفاظ کا تال میل ہی نہیں بلکہ ان کی اعلی سوچ وفکرکی بھی عکاسی کرتی۔ اور اسی طرح شاعر کے خلوص کی شدت وحدتِ کائنات و حیات کے تمام مظاہر و مناظر کو تپا اور گھلا کر ایک تخلیقی وحدت کی شکل دے دیتی ہے،ان کا حمدیہ کلام اس بات کا مظہر ہے،جیسے ان کی حمد کے اشعار ہیں :
اے کریم اور مشکل کشا رب
آفتوں میں گھرا ہوں بچا رب
غزل اردو شاعری کی مقبول ترین “صنف” سخن ہے۔ غزل توازن میں لکھی جاتی ہے اور یہ ہم قافیہ و بحر اور ہم ردیف مصرعوں سے بنے اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے مطلع کے علاوہ غزل کے باقی تمام اشعار کے پہلے مصرع میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں ہوتی ہے جبکہ مصرع ثانی میں غزل کا ہم آواز قافیہ و ہم ردیف کا استعمال کرنا لازمی ہے غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے جس کے دونوں مصرعے ہم بحر اور ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں غزل کا آخری شعر مقطع کہلاتا ہے بشرطیکہ اس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرے ورنہ وہ بھی شعر ہی کہلاتا ہے،زلف و رخسار کی باتوں کو غزل کہتے ہیں۔غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے یا عورتوں کی باتیں کرنے کے ہیں۔ چونکہ غزل میں روایتی طور پر وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے اس لیے اس صنفِ شعر کا یہ نام پڑا۔ غزل اس چیخ کو بھی کہا جاتا ہے جو شکار ہوتے ہوئے ہرن کے منہ سے نکلتی ہے۔ اصطلاحِ شاعری میں غزل سے مراد وہ صنفِ نظم ہے جس کا ہر ایک شعر الگ اور مکمل مضمون کا حامل ہو اور اس میں عشق وعاشقی کی باتیں بیان ہوئی ہوں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی۔ تاہم آج کل کی غزل میں عشق و عاشقی کے علاوہ ہر موضوعات پر اظہارِ خیال پیش کیا جاتا ہے۔ غزل کا آغاز فارسی زبان سے ہوا مگر اس کا سراغ عربی تک بھی لگایا جا سکتا ہے کیونکہ عربی صنف قصیدہ میں کے تشبیب نامی حصے ہی سے غزل کی ابتدا ہوئی۔
غزل کے لیے پہلے ریختہ لفظ استعمال میں تھا۔( امیر خسروؔنے موسیقی کی راگ کو ریختہ نام دیا تھا) ادب کے دیگر اصناف ادب اور فنون لطیفہ میں سب سے زیادہ غزل کو پسند کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ غزل اسٹیج کے علاوہ سخن کا بہترین ذریعہ اظہار بھی ہے۔ کم لفظوں میں مکمل بات کرنے کا ہنر ہے۔ غزل کا سانچا چھوٹا ہوتا ہے اسی لیے جذبے یا خیالات کو پھیلانے کی گنجائش محدود ہوتی ہے۔ اس لیے رمزئ ایماتمثیل و استعارہ، پیکر آفرینی اور محاکات اۡس کے فنی لوازم بن گئے ہیں۔غزل متنوع موضوعات کا مرکب ہوتی۔لفظ ’غزل،کے سنتی ہی حواسِ خمشہ بیدار ہو جاتے ہیں۔یہ صنف ادب و سخن میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے، عام و خاص کی ابتدا ئی سے ہی دلچسپی کا ذریعہ ہے۔ فنی نقطہ نظر سے بھی اس کا مقام اعلیٰ ہے۔ عالمی سطح پر سیر و تفریح کرتی ہے۔ یہ ادب بھی ہے اسٹیج بھی ہے۔جذبات و احساسات کا سمندر بھی ہے۔ قوموں ‘ملکوں کے فاصلے مٹانے کا ذریعہ بھی ہے۔غزل صرف عورتوں کے حسن وجمال اور عشق ومحبت کے قصے بیان کرنا نہیں ،بلکہ حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں غزل ہر مضمون کی گنجائش پیدا کرتی ہے ،جس کے بعد اس صنف میں ہر قسم کے خیالات بیان کیے جا رہے ہیں غزل کو اردو میں شاعری کی آبرو بھی کہا جاتا ہے۔اردو زبان میں شاعری کی مختلف قسمیں دریافت ہوتی رہی ہیں یہ نہ ہی غزل کی مقبولیت کا مقابلہ کر سکی اور نہ ہی اس کی مقبولیت کو نقصان پہنچا سکیں۔اردو کے قومی تمام شعراءاپنی شاعری کی بنیاد اسی صنف سخن سے کی اور اسی طرح سے ذکی طارق صاحب بھی انہی میں سے ایک ہیں جنہوں نے بہترین غزلیں کہیں ،اور انہیں غزل کے فن پر کافی عبور حاصل ہے اور انہوں نے غزل میں جدت کو اختیار کیاہے۔ اور ان کی غزلوں میں فصاحت و بلاغت نمایاں پائی جاتی ہے، اور ان کی غزلیں نفاست اور نزاکت سے آراستہ ہوتی ہیں ،اور ان کاکلام دلوں پر راج کرتا ہے۔ ذکی طارق کا تخیل باکمال اور ان کی شاعری اپنے اندر جدت کے ساتھ روایتی پن بھی لئے ہوئے ہوتی ہے ،ان کے شاعری (Poetry) کا مادہ “شعر” ہے اس کے معانی کسی چیز کے جاننے پہچاننے اور واقفیت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحاً شعر اس کلامِ موزوں کو کہتے ہیں جو قصداً کہا جائے۔ یہ کلام موزوں جذبات اور احساسات کے تابع ہوتا ہے۔ اور کسی واقعہ کی طرف جاننے کا اشارہ کرتا ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے کوئی حادثہ دیکھا ہو اور وہ آپ کے دل پر اثر کر گیا ہو اور آپ کے اندر سے خود بخود الفاظ کی صورت میں ادا ہو جائے اس اثر کے بیان کو شعر کہتے ہیں اور انہی شعروں کو شاعری کے نام سے جانا جاتا ہے۔
( موزوں الفاظ میں حقائق کی تصویر کشی کو شاعری کہتے ہیں۔) شعر تعبیر ہے تخیل ہے اسی لیے لاکھوں موزوں کلام ایسے ہیں جو شعر نہیں۔ شعر کا پہلا عنصر وزن ہے اور دوسرا عنصر خیال حقیقت کو وزن اور خیال کے سانچے میں ڈھالنا کمال سخنوری ہے۔ اوراسی طرح ذکی طارق صاحب کو بھی حقیقت کو وزن اور خیال میں ڈھالنے کی مہارت حا صل ہے۔چھوٹی بحر سے لیکر بڑی بحر تک کو انہوں عمدہ نبھایا ہے وزن وخیال کمال است اللہ پاک نے انہیں اپنے احساسات کو لفظوں میں ڈھالنے کاکمال ملکہ عطا کیا ہے۔
اسلام میں شعرا ءکی کچھ اقسام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ سورۃ الشعرا میں شاعروں کی پیروی سے منع کیا گیا ہے۔ سورۃ الشعرا کی آیت 224 میں شعرا ءکو بھٹکے ہوئے لوگ کہا گیا ہے۔ ان کی پیروی کرنے والوں کو بھی بہکے ہوئے لوگ کہا گیا ہے۔
“کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں”
“اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں”
جب کہ کچھ اقسام کے بارے میں حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے، جیسے کہ شاعر رسول حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا بھی کی تھی، “یا اللہ اس کی روح القدس (جبریل علیہ السلام) کے ذریعے مدد فرما” چنانچہ ہر قسم کی شاعری اسلام میں مذموم نہیں ہے بلکہ جس طرح بیہودہ گفتگو اسلام میں منع ہے اسی طرح بیہودہ شاعری بھی منع ہے اور جس طرح اچھی گفتگو کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اسی طرح اچھی شاعری کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
اور اسی طرح ذکی طارق کاکلام بامقصد ہے اپنے اندر ایک فہم وفراست کو لئے ہوئے ہے،اور انہوں نے نعتہ کلام بھی لکھا جس سے ان کی رسول پاک ﷺ سے محبت وعقیدت کا اندازہ ہو تاہے ان کا نعتیہ کلام سے چند اشعار !
کیوں نہ اس پے زندگی اپنی ذکی واری کرے
وہ نبی جو سارے ہی نبیوں کی سرداری کرے
ان کی شاعری محض لفظوں کو کا جوڑ توڑ کافیہ ردیف نہیں بلکہ ان کے احساسات اور معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف اعلان جنگ ہے ان کامشن حق کا علم بلند کرنا ہے۔
ان کی ادبی خدمات بے شمار ہیں۔ ذکی طارق کا شمار اس دور کے ان شعرا میں ہوتا ہے ، جنہوں نے اردو شاعری کو نئی راہ دکھائی اور اگر ہم عصر حا ضر کے شعرا ٪ء کی بات کریں ، تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اردو ادب کی دنیا میں بے شمار لوگ نظر آئیں گے ، جو اردو ادب کی خدمت کیلئے خوب محنت کر رہے ہیں ،پھر چاہے وہ ادب کی کسی بھی صنف سخن سے تعلق رکھنے والے ہوں وہ مسلسل اپنی محنت اور کاوش کے ساتھ اردو کا دامن سراب کرنے میں مصروف عمل ہیں ، جس طرح پاکستان میں اردو زبان کی فکر کرنے والے لوگ موجود ہیں اسی طرح ہندوستان میں اس زبان کے لیے فکر کرنے والے لوگ موجود ہیں جو بلاشبہ کسی ذاتی مفاد کے لئے نہیں بلکہ خلوص نیت کے ساتھ اردو کے لیے کام کر رہے ہیں،اور اسی طرح اتر پردیش کے بارہ بنکی ضلع سے تعلق رکھنے والے جناب محترم ذکی طارق صاحب کا نام ان ناموں میں سے ایک ہے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ملک اور بیرون ملک میں اپنی علیحدہ شناخت قائم کی ہے ،ہندوپاک کے لگ بھگ تمام اخبارات میں ان کی غزلیں اور نظمیں مسلسل شائع ہو رہی ہیں ،اس کے علاوہ مختلف رسالوں میں بھی ان کی غزلیں دیکھی جاسکتی۔ جو بلاشبہ ان کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے اردو ادب کے میدان وسعت پیدا کی ہے۔اور جس طرح وہ اپنی شاعر ی میں الفاظ کا چناو کرتے ہیں اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں زبان دانی پر کمال مہارت حا صل ہے۔
تیری شکست کا حر بہ تلا ش کر تے ہیں
تجھے نہیں تر ے جیسا تلا ش کر تے ہیں
٭٭٭
چراغ ، پھول ، شگوفہ، دھنک ، ستارہ ،چاند
ہم اہلِ ذوق بھی کیا کیا تلاش کرتے ہیں
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…