<p id="firstHeading" class="firstHeading" lang="en">Shamsur Rahman Faruqi</p>
<p style="text-align: right;">پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی موت اردو زبان و ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔</p>
<p style="text-align: right;">ان کی موت سے ہمارے بیچ میں ایک روشن دماغ نہ رہا۔
.ان خیالات کا اظہار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور دہلی اردو اکیڈمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر اخترالواسع نے کیا ہے</p>
 
Shamsur Rahman Faruqi
<h4 dir="auto">فاروقی صاحب کا آخری سفر: پروفیسر اخلاق آہن</h4>
<div dir="auto"></div>
<div dir="auto">ایک سفر وہ ہے جس میں</div>
<div dir="auto">پاؤں نہیں دل دکھتا ہے</div>
<div dir="auto">آن سفرکرده که صد قافله دل همره اوست</div>
<div dir="auto">هر کجا هست خدایا به سلامت دارش</div>
<div dir="auto"></div>
<div dir="auto">
<h4 dir="auto"></h4>
<h4 dir="auto">عظیم ادیب و دانشور پروفیسر شمسُ الرحمن فاروقی کے انتقال پر غالب انسٹی ٹیوٹ کا اظہار تعزیت.</h4>
<div dir="auto"></div>
<div dir="auto"></div>
<div dir="auto">عظیم ادیب و دانشور پروفیسر شمسُ الرحمن فاروقی کے انتقال پر غالب انسٹیٹیوٹ کے سیکرٹری پروفیسر صدیقِ الرحمن قدوائی اور ڈائریکٹر ڈاکٹر رضا حیدر اور تمام ممبران نے اپنے شدید رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔شمسُ الرحمن فاروقی کا غالب انسٹی ٹیوٹ سے ایک طویل تعلق رہا ہے۔ غالب انسٹیٹیوٹ کے سکریٹری صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ شمس الرحمٰن فاروقی ایک جید عالم اور صاحب بصیرت ناقد و محقق تھے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے ہمیں اپنی تہذیب و روایت کا صحیح معنوں میں احترام سکھایا۔ ان کی ہر تحریر میں فکری جہت سے کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور ہوتا تھا جس تک عام ذہن کی رسائی ممکن نہیں۔</div>
<div dir="auto"></div>
<h4 dir="auto">غالب انسٹی ٹیوٹ کے خیر خواہ</h4>
<div dir="auto"></div>
<div dir="auto">وہ اردو ادب کے بڑے عالم ہونے کے ساتھ غالب انسٹی ٹیوٹ کے خیر خواہ اور راہنما بھی تھے۔ ان کی غیر موجودگی ان مسائل کو اہم بنا دے گی جو ا‌ن کے رہتے معمولی معلوم ہوتے تھے۔ خدا وند کریم ان کو جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور پسماندگان کو صبر عطا کرے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر سید رضا حیدر نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شمس الرحمٰن فاروقی کا سانحہ ارتحال پوری اردو دنیا کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے غالب انسٹی ٹیوٹ سے ان کا پرانا اور گہرا تعلق تھا۔</div>
<h4 dir="auto"></h4>
<h4 dir="auto">ان دونوں کتابوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی.</h4>
<div dir="auto"></div>
<div dir="auto">وہ یہاں کے سبھی اہم مذاکروں میں شریک رہے۔ آپ بہت سی اہم کتابوں کے مصنف ہیں. اور غالب انسٹی ٹیوٹ کو بھی یہ اعزاز حاصل رہا ہے کے اس ادارے نے آپ کی دو اہم ترین کتابوں 'تفہیم غالب'. اور 'غالب پر چار تحریریں' کو شائع کیا۔ ان دونوں کتابوں نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی. اور فاروقی صاحب کو اس عہد کے سب سے بڑے غالب شناس کی حیثیت سے متعارف کرایا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں غالب انعام بھی پیش کیا گیا . اور گذشتہ سال ان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا تھا. جس میں دہلی کی تمام بڑی ادبی شخصیات نے شرکت کی تھی. اور غالباً یہ ان کی زندگی کی آخری بڑی تقریب تھی جس میں وہ بہ نفس نفیس شریک تھے۔</div>
<h4 dir="auto"></h4>
<h4 dir="auto">'شمس الرحمٰن فاروقی: ادیب و دانشور.</h4>
<div dir="auto"></div>
<div dir="auto">اس موقعے پر ایک اہم کتاب 'شمس الرحمٰن فاروقی: ادیب و دانشور' (مرتبہ سید رضا حیدر و محضر رضا) کی رونمائی بھی عمل میں آئی جو ان کی ادبی شخصیت کا اہم حوالہ ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔ میری دعا ہے کہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے خدا وند کریم جلد از جلد اس کو پر کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے میں اپنی طرف سے اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین کی جانب سے ان کے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔</div>
</div>.
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…