بھارت چھوڑو تحریک کا آغاز اگست 1942میں ہوا۔ 1857سے 1947تک جنگ آزادی کی نوّے سالہ تاریخ میں ”بھارت چھوڑو تحریک“ آخری اور فیصلہ کن تحریک تھی۔ یوسف مہر علی صف اوّل کے مجاہد آزادی تھے۔ انھوں نے مہاتما گاندھی کے ساتھ مل کر ملک کو آزاد کرانے کے لئے جدجہد کی۔ یوسف مہر علی اس وقت بمبئی کے میئر چنے گئے تھے جب وہ انگریز مخالف تحریک میں حصہ لینے کے لئے یرودا جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔ یہ وہی یوسف مہر علی ہیں جنھوں نے سائمن واپس جاؤ (Simon Go Back) کا نعرہ بھی بلند کیا تھا۔
دراصل بھارت چھوڑو تحریک کے پس منظر میں دوسری عالمی جنگ میں زبردستی ہندوستانیوں کو شامل کرنے اور کرپس مشن کی ناکامی ہے۔ 3ستمبر 1939کوجب باقاعدہ عالمی جنگ کا اعلان ہوا تو 1935 کے ایکٹ کے مطابق ہندوستان اپنے آپ جنگ میں شامل ہو گیا۔ وائسرائے نے ہندوستانی قیادت کو یہ یقین دلایا کی عالمی جنگ میں وہ برطانیہ کی بھرپور مدد کریں اور جنگ کے خاتمے کے بعد انگریزی حکومت ہندوستان کو مزید رعایات دے گی۔ لیکن ان کی یہ یقین دہانی ہندوستانی رہنماؤں کے لئے اطمنان بخش اور قابل قبول نہیں تھی۔
1941 میں عالمی جنگ اپنے شباب پر تھی۔ ایسے حالات میں ہندوستانی رہنما کشمکش کے شکار تھے۔ خطرہ دونوں جانب سے تھا۔ انگریزوں کی طاقت بڑھنے کی صورت میں حصول آزادی کا سپنا ٹوٹ سکتا تھا۔ اور ہندوستان کی سرحدوں پر فاشسٹ فوجیں کھڑی تھیں۔ اس صورت حال میں برطانیہ کی بے چینی بھی قابل دید تھی۔ برطانیہ اس مشکل وقت میں ہندوستان سے بھرپور تعاون کی اپیل کر رہا تھا۔ اسی سلسلے میں سر اسٹیفورڈ کرپس کو ہندوستان بھیجا گیا۔ سر اسٹیفورڈ کرپس ہندوستانی معاملات کے ماہر تسلیم کئے جاتے تھے۔ کئی اہم ہندوستانی رہنماؤں سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ اس وقت سر اسٹیفورڈ کرپس برطانیہ کی وار کیبینٹ کے ممبر تھے۔ سر کرپس ایک مشن پر ہندوستان آئے تھے۔ جنگ آزادی کی تاریخ میں کرپس مشن کا ایک خاص مقام ہے۔ کرپس مشن سے ہندوستان کو امیدیں وابستہ تھیں۔ ہمارے رہنماؤں کو لگتا تھا کہ برطانیہ اس وقت مشکل میں ہے اس لئے وہ ہندوستان سے کچھ اہم معاملات پر سمجھوتہ کرے گا۔ لیکن اس کرپس مشن میں جو ڈرافٹ برطانیہ کی جانب سے پیش کیا گیا اس میں کچھ خاص نہیں تھا۔ جو کچھ تھا وہ امیدوں سے اس قدر کم تھا کہ ہندوستانی رہنما اسے منظور نہیں کر سکتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کرپس مشن ناکامی کی نذر ہو گیا۔
کرپس مشن کی ناکامی سے ملک بھر میں مایوسی کی ایک فضا قائم ہوئی۔ گاندھی جی بھی اس کی ناکامی سے بہت فکرمند تھے۔ تحریک آزادی ہند اب ایسی موڑ پہ کھڑی تھی جہاں سے راستے بند نظر آرہے تھے۔ یہ فیصلہ کن مرحلہ تھا۔گاندھی جی نے فیصلہ کیا کہ اب برطانیہ کو سیاسی طاقت پوری طرح ہندوستان کے ہاتھوں میں سونپنا ہوگا۔ واردھا میں جو مٹنگ ہوئی اس میں ”ڈائریکٹ ایکشن“ کی بات سامنے آئی۔”بھارت چھوڑو“ کا نعرہ بلند ہوا۔ بھارت کے ہر شہری نے اس نعرے کو اپنا نعرہ بنا لیا۔ اب ”انگریزوں بھارت چھوڑو“ سے کم کچھ بھی منظور نہیں تھا۔ 7 اگست 1942 کو بمبئی میں اے آئی سی سی کی مٹنگ طلب کی گئی کہ ”بھارت چھوڑو تحریک“ کو ایک پالیسی کے طور پر منظور کرایا جا سکے۔ بمبئی میں منعقد اے آئی سی سی کی یہ مٹنگ تاریخی مٹنگ تھی جس میں ”بھارت چھوڑو تحریک“ کا ریزولیشن پاس کیا گیا۔
گاندھی جی کو پونا کے آغا خان پیلیس میں قید کر دیا گیا اور باقی تمام اہم رہنماؤں کو قلعہ احمد نگر میں قید کیا گیا۔ 9اگست 1942کی صبح ہندوستان بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی کہ ”بھارت چھوڑو تحریک“ شروع کرنے کی پاداش میں گاندھی جی سمیت سبھی بڑے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ احتجاج کرنے والوں سے حکومت پولیس کے دم پر نپٹنا چاہتی تھی۔ لیکن مشتعل لوگوں کے ہجوم کو قابو میں رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ سبھی اہم رہنما جیل میں تھے۔ لوگوں میں بے چینی اور بے اطمنانی بڑھتی جا رہی تھی۔ مزدور، کسان، طالب علم، اسکول ٹیچر سبھی تحریک کا حصہ بن چکے تھے۔ کہیں کہیں سے تشدّد کی خبریں بھی آنے لگیں۔ پولیس تھانہ، ریلوے اور پوسٹ آفس کو لوگوں نے نشانہ بنایا۔ جے پرکاش نرائن، رام منوہر لوہیا اور ارونا آصف علی انڈر گراؤنڈ ہو کر تحریک کی رہنمائی کر رہے تھے۔
8اگست 1942 سے 15اگست 1947تک صرف یہ دیکھنا باقی تھا کہ آزادی کس دن اور کس تاریخ کو ملے گی۔ اس ”بھارت چھوڑو تحریک“ نے دراصل ہمیں آزادی کے دروازے پر کھڑا کر دیا تھا۔ اب صرف دروازے سے اندر داخل ہو کر ہمیں ترنگا پرچم لہرانا تھا۔ جسے ہم نے 15اگست 1947کو لال قلعے پر لہرایا۔
آج نئی نسل کو یہ ضرور جاننا چاہئے کہ 9اگست 1942کو کیا ہوا تھا۔ کیوں طالب علموں نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ کیوں گاندھی جی کی ایک آواز پر لاکھوں نوجوان اور طالب علم اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار تھے۔ آج ہم کو یہ ضرور جاننا چاہئے۔ آج کے دن ہمیں پہلی اگست 1920کے عدم تعاون تحریک کو یاد کرنا ہے، ا ور 9اگست 1942کے بھارت چھوڑو تحریک کو یاد کرتے ہوئے ارونا آصف علی کی بہادری کو یاد رکھنا ہے۔ اور پھر 15اگست 1947 کے اس تاریخی دن کو اپنی یادوں کا حصہ بنا کے رکھنا ہے۔ انھی خصوصیات کی بنا پر اگست کے مہینے کو انقلاب کا مہینہ کہتے ہیں۔ اگست کرانتی کے موقع پر ہندوستان کے سوا سو کروڑ لوگوں کو ایک عہد کرنا چاہئے کہ اپنی آزادی کو ہم ہرگز مٹا سکتے نہیں۔
(کالم نگار ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی،میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)
.
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…