یوم اساتذہ ڈاکٹر رادھا کرشنن اور ہماری روایات

یوم اساتذہ ڈاکٹر رادھا کرشنن اور ہماری روایات

ہر سال 5ستمبر کو ہم یوم اساتذہ مناتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے یہ ڈاکٹر رادھا کرشنن کا جنم دن ہے۔ ڈاکٹر رادھا کرشنن ہندوستان کے صدر تھے۔ ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن چونکہ صدر جمہوریہ ہند بننے سے پہلے ایک ٹیچر تھے اس لئے ان کے جنم دن کو ٹیچرس ڈے یا یوم اساتذہ کے طور پر مناتے ہیں۔ ہوا یہ کہ جب ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن جی صدر بنے اور راشٹرپتی بھون میں رہنے لگے تو ایک بار ان کے جنم دن یعنی 5ستمبر کو کچھ لوگ راشٹرپتی بھون پہنچ کر ان سے گزارش کی کہ ہم آپ کا جنم دن منانا چاہتے ہیں۔ آپ اجازت دیں۔ پہلے تو ڈاکٹر رادھا کرشنن نے منع کیا لیکن جب ان کے چاہنے والے بضد ہوئے تو ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کہا کہ اگر آپ لوگ میرا جنم دن منانا ہی چاہتے ہیں تو اسے یوم اساتذہ کے طور پر منائیں، کیونکہ میں ایک استاد ہوں اور مجھے اپنی یہ پہچان بہت عزیز ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن ایک بہترین استاد تھے اور اپنے شاگردوں سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔ چونکہ وہ ایک اعلیٰ پائے کے دانشور اور فلسفی بھی تھے اس لئے ان کے شاگرد ان کی قربت میں ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے تھے۔
آزاد ہندوستان کی خوش بختی تھی کہ ڈاکٹر راجندر پرساد پہلے صدر جمہوریہ ہند تھے۔ ان کے بعد ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن صدر جمہوریہ ہند بنے ۔ اور تیسرے نمبر پر ڈاکٹر ذاکر حسین اس ملک کے صدر بن کر راشٹرپتی بھون پہنچے تھے۔ یہ تینوں اپنے زمانے کے بہترین ماہر تعلیم تھے۔ اچھے اسکالر اور دانشور تھے۔ ذاکر حسین بھی ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن کی طرح ٹیچر تھے۔ لیکن ٹیچر ہونے کو جس طرح فخر کی علامت ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن نے بنا دیا وہ کام کسی اور سے نہیں ہو سکا۔ سچ بات یہ ہے کہ اس عظیم ٹیچر کی یاد میں ہی ہم ہر سال 5ستمبر کو یوم اساتذہ مناتے ہیں۔
یہ بات خود ڈاکٹر سرو پلّی رادھا کرشنن کے لئے بھی باعث اعجاز ہے کہ ان کے جنم دن کو پورا ملک یوم اساتذہ کے طور پر مناتا ہے۔ یہ تو اب طے ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک چاہے جس دن یوم اساتذہ مناتے ہوں لیکن ہندوستان میں یوم اساتذہ 5ستمبر ہی ہے۔ اس پر اب کوئی بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ یوم اساتذہ کے حوالے سے ہمیں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ کیا ہم ایک دوسرے کو ”ہیپی ٹیچرس ڈے“ بول کر مبارکباد دے لیں اور کام ختم ہوا؟ بس اتنی ہی ہماری ذمہ داری ہے؟ حکومت، سماج، طالب علم اور ٹیچر سبھی کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب کو اپنے اپنے رول کے بارے میں از سر نو غور وفکر کرنی چاہئے۔
حکومت طے کرے کہ ایک ٹیچر کو وہ تمام سہولیات اور وہ احترام دیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ اسے اتنی سہولیات مہیا کرا دی جائیں کہ وہ تمام دوسری باتوں کو بھول کر صرف درس و تدریس پر دھیان مرکوز کر سکے۔ پرائمری سیکسشن کے استاد سے لے کر یونیورسٹی کے اساتذہ تک کے لئے ایک ایسا گائڈ لائین تیا کیا جانا چاہئے جس سے ایک ٹیچر کی تمام شکایات دور کی جا سکیں۔ اسی کے ساتھ سماج کو بھی یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ٹیچر صرف پیسوں کے لئے دن رات ایک کر کے ملک کا مستقبل سنوارنے میں خود کو فنا کر رہا ہے؟ نہیں اس کا رول کہیں زیادہ اہم ہے۔ اسی لئے سماج یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتا ہے کہ حکومت اساتذہ کو اچھی سیلری دے رہی ہے تو اب سماج کی کوئی ذمہ داری ہی نہیں ہے۔ سماج کو چاہئے کہ وہ ایسا ماحول بنانے میں مدد کرے جہاں ایک ٹیچر کو عزت و احترام مل سکے۔
طلبہ کو غور کرنا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کو اس بدلتے زمانے میں کس روپ میں یاد رکھنا چاہتے ہیں یا کس روپ میں یاد رکھنا چاہیں گے۔ کیوں کہ صارفیت نے یہ بھی سکھایا ہے کہ استاد شاگرد کا رشتہ اب کسٹمر اور پروڈکٹ کی طرح کا رشتہ ہے۔ استاد تعلیم نہیں دے رہا ہے بلکہ وہ پیسوں کے بدلے میں علم نام کا پروڈکٹ طالب علموں کو فروخت کر رہا ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔ پہلے زمانے میں استاد کی تنخواہیں بہت کم تھیں، طالب علم کو خود کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا۔ تب وہ استاد کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔ گرو کو بھگوان ماننے کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی۔ لیکن بدلتے زمانے نے سوالات تو کھڑے کر دئے ہیں۔ اسی کے سب سے زیادہ اساتذہ کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ کیا واقعی وہ اس قابل ہیں کہ سماج ان کا احترام کرے؟ صارفیت نے ان کے اندر بھی لالچ اور حسد بھر دیا ہے۔ وہ بھی اب طلبہ کا مستقبل سنوارنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی جیب بھرنے کے لئے تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو رہے ہیں۔ اور کچھ اساتذہ تو ایسے بھی ہیں جو اپنے میدان کے اناڑی کھلاڑی ہیں۔ انھیں اپنے سبجیکٹ کا ہی گیان نہیں ہے۔ ایسے اساتذہ کالج یا یونیورسٹی سے اچھی موٹی رقم بطور تنخواہ وصول کر رہے ہیں لیکن اپنی کم علمی یا جہالت کے سبب اپنے طلبہ کا مستقبل خراب کر رہے ہیں۔ اس لئے یوم اساتذہ کے موقع پر ہم ضرور ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کریں، ہیپی ٹیچرس ڈے بولیں لیکن خود احتسابی بھی کریں۔.

Dr. S.U. Khan

Dr. Shafi Ayub editor urdu

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

9 months ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

9 months ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

9 months ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

9 months ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

9 months ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

9 months ago