عالمی

بلوچستان: 76 اسکول بند یا پاکستانی فوج کے قبضے میں، کیاہے سچائی؟

بلوچستان نیشنل موومنٹ  کے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق، صوبہ بلوچستان میں کم از کم 76 سکولوں کو بند رکھا گیا ہے یا پاکستانی فوج نے ان پر قبضہ کر کے فوجی چوکیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔

بلوچستان کی تحصیل مشکئی میں 13 سکول بند کر دیے گئے جبکہ تحصیل آواران میں بھی 63 اسکولوں کو سہولیات کی عدم فراہمی کی صورتحال کا سامنا ہے۔محکمہ سماجی بہبود بی این ایم کے مطابق، یہ اقدامات پاکستان کے نوآبادیاتی نظام اور بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے نقطہ نظر کی عکاسی کرتے ہیں، جو شعور کو دبانے کو ثابت کرتے ہیں۔

بی این ایم نے رپورٹ کیا کہ ان کے اس عمل کی وجہ سے، بچوں کی تعلیم زیادہ تر متاثر ہوتی ہے۔”مشکئی اور آواران اضلاع میں بلوچ بچوں کو تعلیمی محرومیوں کا سامنا کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔ اسکولوں کی بندش اورتعلیمی سہولیات پر فوجی قبضہ تعلیم کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے اوربین الاقوامی اداروں کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔

رپورٹ میں تعلیم کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور بین الاقوامی اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بلوچستان میں تعلیم کی ناقص صورتحال پر توجہ دیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ “تعلیم ایک بنیادی انسانی حق ہے، اور اس سے محرومی کسی خطے کی سماجی و اقتصادی ترقی پر طویل مدتی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ عالمی برادری کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بلوچ بچوں کو تعلیم تک رسائی حاصل ہو۔عالمی برادری کو پاکستان پر زور دینا چاہیے کہ وہ بلوچ بچوں کے تعلیم کے حق کا احترام کرے اور اسکولوں پر قبضے سے باز رہے۔

بلوچستان ایک منفرد ثقافتی اور لسانی شناخت کے ساتھ ایک الگ علاقہ ہے اور پاکستانی ریاست کو اپنی تاریخ، زبان اور ثقافت کو مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کی استعماری پالیسیاں بلوچستان میں تعلیم کی ابتر حالت کی ذمہ دار ہیں۔بلوچستان کے اندر پاکستانی ریاست اور بلوچ عوام کے درمیان قابض اور محکومیت کا رشتہ موجود ہے، ریاست فوجی جارحیت کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔

عوام کو تعلیم سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، خطے کے بہت سے اسکول یا تو مناسب سہولیات سے محروم ہیں یا بند پڑے ہیں، جس سے بچوں کے تعلیمی مواقع بہت متاثر ہو رہے ہیں۔اگرچہ بی این ایم کے محکمہ سماجی بہبود نے حال ہی میں تحصیل جھاؤ میں تعلیمی صورتحال کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔تحصیل مشکئی کے تیرہ سکول 2009، 2015 اور 2016 سے بند ہیں۔

مزید برآں، پاک فوج نے بوائز پرائمری سکول گجلی پر قبضہ کر رکھا ہے۔دریں اثناء تحصیل آواران میں مجموعی طور پر اڑسٹھ سکولوں میں سے چار بند پڑے ہیں تاہم باقی سکولوں میں طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کے لیے مزید سہولیات کی ضرورت ہے۔

مزید برآں، آواران میں کچھ اساتذہ کی ذاتی کاروباری مفادات کے حصول کے لیے اپنے فرائض سے غفلت برتنے کی اطلاعات ہیں۔ یہ غیر حاضری علاقے میں سیکھنے اور سکھانے کے عمل کو نمایاں طور پر متاثر کرتی ہے۔

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago