Categories: عالمی

یورپی خارجہ امور کے سربراہ افغانستان کی صورت حال سے مایوس

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
برسلز،09جون(انڈیا نیرٹیو)</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
یورپی خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کو مشکل قرار دیتے ہوئے اس پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔یورپی پارلیمنٹ میں افغانستان کے موضوع پر اپنا پالیسی بیان دیتے ہوئے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا کہ افغانستان ایک اور جگہ ہے جہاں امید پسندی کی گنجائش نہیں ہے یہ گنجائش نہ ہونے کے باوجود ہمیں ایسے ملک میں مصروف رہنا ہے جہاں عام شہریوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ اور ان ہلاکتوں میں 40 فیصد خواتین یا بچے ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
انہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور نیٹو افواج اس ملک سے انخلاکرنے والی ہیں، یورپی ممبر ممالک کی فوجیں بھی چلی جائیں گی، امن کا عمل یہاں تعطل کا شکار ہے اور تشدد جاری ہے۔ سول سوسائٹی، میڈیا کارکنوں، سرکاری ملازمین کی ٹارگٹ کلنگ سمیت ہم عام شہریوں کی ہلاکتوں کی حیرت انگیز شرح دیکھ رہے ہیں اور مستقبل قریب میں اس تشدد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ افغانستان میں سلامتی کی صورت حال تیزی سے بگڑ رہی ہے، طالبان نے ملک کے آدھے سے زیادہ علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور سمجھوتے کے امکانات کم ہوتے جارہے ہیں لہٰذا امن معاہدے کے قلیل مدتی امکانات تاریک نظر آتے ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جوزپ بوریل نے اس موقع پر طالبان کا سیاسی جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طالبان جانتے ہیں کہ افغان آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ان کی سوچ کا ساتھی اور شریک کار نہیں اور مذاکرات سے متعلق امن تصفیہ کی عدم موجودگی میں نسلی اور مذہبی دراڑیں ابھر کر سامنے آسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ لہذا میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ یورپی یونین امن عمل کی حمایت اور افغان عوام کے ساتھ شراکت دار رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
یورپی خارجہ امور کے سربراہ جوزپ بوریل نے کہا کہ پچھلی دو دہائیوں کے دوران ہم نے افغانستان کے استحکام اور ترقی کے لیے سیاسی اور مالی وسائل کی سرمایہ کاری کی ہے اسی دوران ہم نے اپنے فوجیوں کی بڑی تعداد میں جانیں بھی گنوا ئی ہیں لیکن ہماری مدد سے افغان خواتین کو بااختیار ہونے میں آسانی اور انسانی حقوق کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
انہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران افغان خواتین اس قرون وسطی کے زمانے سے نکلی ہیں جس میں وہ طالبان کے وقت میں تھیں، یہ تمام کارنامے اب خطرے میں ہیں کیوں کہ افغانستان آج ایک دوراہے پر ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہمارے اسٹریٹیجک مفادات بھی داو پر لگے ہوئے ہیں، فوج کا آزادانہ انخلائ ، افغانستان سے سیاسی اور سویلین امداد سے دستبرداری ہمارے مفادات کو پورا نہیں کرے گی، یہ ایک بار پھر افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کے عروج کی طرف لے جا سکتا ہے۔ یہ جبری نقل مکانی کا بھی سبب بن سکتا ہے، ایسی بے قاعدہ نقل مکانی جو اکثر اسمگلروں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
اپنی 9 منٹ کی مسلسل تقریر میں انہوں نے طالبان کیلئے اپنا پیغام دیا کہ ہم اس پر واضح ہیں کہ جامع امن مذاکرات کے ذریعے طے شدہ سیاسی تصفیے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل اور جامع جنگ بندی اور امن مذاکرات میں نمایاں پیش رفت کے بغیر طالبان کو پابندیوں سے نجات نہیں مل سکتی ہے۔انہوں نے کہاکہ افغان حکومت اور طالبان پر یہ واضح کرنا ہوگا کہ ہماری جانب سے مسلسل مالی اور سیاسی مدد ، ملک میں انسانی حقوق اور جمہوری تحفظ کیلئے مشروط ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہم نے گزشتہ 20 سال میں 3.5 ارب ڈالر کی ترقیاتی امداد دی ہے۔ مستقبل میں بھی یہ تعاون جمہوریت، بہتر حکمرانی، خاص طور پر انسداد بدعنوانی، اور خواتین کو تعلیم اور سیاسی و معاشرتی زندگی تک رسائی پر ٹھوس پیش رفت سے مشروط ہوگا۔اس موقع پر انہوں نے خواتین کی صورت حال کو بہت زیادہ بیان کیا اور اسے اپنے مسلسل تعاون کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ خواتین کی تعلیم مہذب معاشرے کی اساس ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
 جب میں افغان لڑکیوں کو پینسل اٹھا کر کلاشنکوف کے بالمقابل نشان بناتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میں سوچتا ہوں کہ ہم سب کو اپنا قلم افغان عوام اور افغانستان کے ساتھ ہی اٹھانا ہوگا۔اپنے اختتامی ریمارکس میں یورپین خارجہ و سیکورٹی امور کے سربراہ نے کہا کہ افغان اسکولوں میں 30 لاکھ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں لیکن 20 لاکھ ابھی بھی اسکول سے باہر ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئیے کوشش کریں کہ جو سکولوں میں ہیں، وہ تعلیم سے محروم نہ ہونے پائیں اور افغانستان قرون وسطی کے زمانے میں واپس نہ چلا جائے۔</p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

9 months ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

9 months ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

9 months ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

9 months ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

9 months ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

9 months ago