ترکیہ میں تباہ کن زلزلے نے 30 ہزار افراد کی ہلاکت کے ساتھ صدر رجب طیب اردگان کی کرسی کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ان پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ زلزلہ ٹیکس لگانے کے بعد بھی تباہ حال افراد کی امداد میں ناکام رہے۔
ترکیہ کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان 28 اگست 2014 سے اپنے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کی پارٹی 20 سال سے ترکیہ پر حکومت کر رہی ہے۔ اس صورتحال میں ان پر زلزلے سے نمٹنے کے قابل نہ ہونے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
دراصل 1999 میں بھی ترکیہ میں ایک زبردست زلزلہ آیا تھا۔ اس زلزلے میں 17 ہزار سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس کے بعد ترکیہ حکومت نے نئی عمارتوں کو اینٹی زلزلہ ٹیکنالوجی کے ساتھ بنانے کا اصول بنایا اور کہا کہ اس اصول پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے۔
اب عوام کا خیال ہے کہ ملک کی حکومت اس اصول پر سختی سے عمل درآمد نہیں کر سکی جس کی وجہ سے ٹھیکیداروں نے بدعنوانی کر کے عوام کے لئے غیر محفوظ عمارتیں تعمیر کر لیں۔
اس کے علاوہ ترکیہ نے موجودہ عمارتوں کو مضبوط بنانے کے لئے خصوصی ٹیکس بھی لگایا تھا جسیزلزلہ ٹیکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ حکومت نے اس ٹیکس سے 17 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ جمع کیا۔
الزام ہے کہ حکومت نے یہ رقم دوسرے کاموں میں خرچ کی۔ اس وجہ سے عوام میں اردگان حکومت کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے اردگان کو عوام کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب صدر اردگان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اس غصے کو کم کرنا ہے۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…