بلوچستان میں گزشتہ 20 روز سے چین کی تجاوزات اور حکومت پاکستان کے مظالم کے خلاف مسلسل احتجاج جاری ہے۔ پاکستان کی عمران حکومت نے گوادر کا علاقہ چین کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔ گوادر خاردار باڑ سے گھرا ہوا ہے۔ گوادر میں بلوچستان میں داخل ہونے کے لیے کسی شخص کو اسی طرح پرمٹ لینا پڑتا ہے جس طرح کسی دوسرے ملک میں داخل ہونے سے پہلے ویزا لیا جاتا ہے۔
1948 میں پاکستان نے دھوکے سے بلوچستان کا الحاق کیا تھا۔ اس وقت سے بلوچستان کے عوام پر پاکستان کی فوج جبر کا چکر چلا رہی ہے۔ بلوچستان میں پاک فوج نے لڑاکا جہازوں اور ٹینکوں سے حملہ کیا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک لاکھوں بلوچستانی مارے جا چکے ہیں اور ہزاروں لاپتہ ہیں۔ بلوچستان میں لوگوں کے پاس رہنے کے لیے عام ذرائع بھی نہیں ہیں۔ اسکولوں اور ہسپتالوں کی بات کرنا بے معنی ہے۔ بلوچستان والوں کے پاس پینے کو پانی اور کھانے کو 2 روٹی تک نہیں ہے۔
اس کے باوجود پاکستان کی حکومت اور فوج بلوچ خواتین اور بچیوں کی عصمت دری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اپنی ماں، بہن اور بیٹیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کرنے والے بلوچستانی مردوں کو دہشت گرد کہہ کر گولی مار دی جاتی ہے یا انہیں ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے خلاف عوام کا احتجاج 20ویں روز بھی جاری ہے۔ لوگ الزام لگاتے ہیں کہ CPECکی وجہ سے ان کی آزادی سلب کی جا رہی ہے۔پورے گوادر میں چین کی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے پاکستان پولیس نے مختلف مقامات پر چیک پوسٹیں قائم کر دی ہیں۔ ان چیک پوسٹوں کو عبور کرتے وقت ہر پاکستانی کی مکمل اسکریننگ کی جاتی ہے۔ جس کے بعد پاکستان کی عمران خان حکومت نے گوادر میں شورش کو کچلنے کے لیے 5500 پولیس اہلکار بھیجے ہیں۔
پاکستانی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ بلوچستان پولیس نے کئی دیگر اضلاع کے 5,500 پولیس اہلکاروں کو امن و امان برقرار رکھنے اور ممکنہ فسادات کو دبانے کے لیے 5,500 پولیس اہلکاروں کو گوادر بھیجنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ بلوچستان کے سینٹرل پولیس آفس کے نوٹیفکیشن کے مطابق اضافی پولیس فورس بھیجی جارہی ہے جس میں نچلے کیڈر کے اہلکاروں کے علاوہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) اور اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) شامل ہیں۔