شاہ خالد مصباحی
چیرمین : کے، وائی ، سی فاؤنڈیشن، سدھارتھ نگر
ملک ہندوستان، زبان و ادب ، تہذیب و ثقافت ، معاشرتی معاملات اور مختلف مذہبی نظریات کے حاملین پر آباد یہ وطن ، باشندگان میں علاقائیت، مذہبی اختلافات کے باوجود وحدتِ قومیت کی شکل میں باہم متحدانہ طور پر آشکار ہونا ، مختلف ثقافتی ، مذہبی پروگراموں کے ایک بنچ پر بیٹھ کر مختلف فرقوں کے ملی ، مذہبی ، اور سماجی کارکنوں کی ایک بے لاگ تعداد، حفاظت وطن ، اندرونی اور بیرونی بغاوت، شر انگیزی سے ، حفاظتِ وطن کی مجموعی تصویر پیش کرنا اور لائحہ عمل بنانا، ہم ہندوستانیوں کے لیے ملک کی حفاظت کے واسطے یہ ایک مضبوط کڑی ہے اور کلونیکل پاور سے آزادی دلانے میں، یہ ایک ورثہ قرار دادہ مشعل، کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
آئینی اعتبار سے اس ملک کی سب سے بڑی کڑی یہ ہے کہ ، یہ سیکولرزم سے اٹھ کر پارلیمنٹری سسٹم پر اپنا وجود رکھتا ہے۔ جو مذہب کو سیاست سے نا جوڑ کر باتیں کرنے، سماجی انصاف اور تمامی مذاہب کو برابری کی عزت و احترام دینا ، مذہبی امور و تقافت اور تہذیبی زندگی کے فروغ کے لیے تعلیمی اداروں کے چلانے اور اس کو پریکٹس کرنے کے تمامی دروازوں کو کھولنے کی باتیں کرتا ہے۔ جس کی ثبوت فرہمی آئین کی دفعہ تیس (٣٠) کر رہی ہے ۔
اس ملک کی وادی روز اول سے اتنی زرخیز رہی ہے کہ مختلف مذہب کے ماننے والوں اور مختلف قسم کی ثقافتوں کو اپنے دامن میں جگہ دی ہے۔
یہ ملک عربیوں کے لیے جہاں مسکن بنی وہیں یورپین، سینٹرل ایشیا کے باشندوں کے لیے بھی سکونت کی جگہ ٹھری،حتی کہ جس شخص نے بھی عالم کے جس بھی خطے سے اس وادی کی طرف رخ کیا ، اس لیے یہ سرزمین ، آرام و آسائش اور جنت نما محل ثابت ہوئی۔
جس کی وجہ سے اس ملک میں مختلف مذاہب کے پیروکار جمع ہوئے، اور مختلف ثقافت کے ماننے والوں کی تعداد بڑھی۔
حکمران ، قانون ، عدالت
کسی بھی ریاست کو اچھے طریقے سے چلانے کے لیے ان تینوں شعبوں میں بہتری ہونا لازم ہے ۔ اس بسیط موضوع کو مزید چھوٹا بناکر باین معنی تقویت بخشنے کی کوشش کررہا ہوں کہ انیسویں صدی قبل ، ٹرانڈیشنل ، روایتی طاقتوں اور جاگیردارانہ حکمرانوں کے ذریعے قائم اصول کے دائرہ میں ذات انسان زندگی گزار رہا تھا ۔ جہاں پر نا کوئی مذہبی یا شخصی رواداری، آذادی تھی ، نا ہی سماجی انصاف ، نہ حقوق و آئین کا کوئی بانی اور نا ہی اس کا پاسداری ، ایک انسان ، جسے موروثی سیاست کے بدلے طاقت حاصل ہوتی تھی جسے راجا کہا جاتا تھا ، بقیہ انسان پرجا کی حیثیت سے اس کے ظلم و جبر ، جزا اور سزا کی رودادِ سلطنت ہوا کرتے تھے ۔
سلطنت کا نا کوئی لچکدار ایگزیکٹو فارم ہوا کرتا اور نا ہی کوئی آزادانہ جیو ڈیسری ڈھانچہ ، ہر کسی کی جزا و سزا کا پریذینڈینشری طور پر ایک ہی شخص حاکم ، قانون، عدالت اور منصف ہوا کرتا تھا۔
مذکورہ بالا نقشہ سے یہ بات آپ سبھی پر واضح ہو جاتی ہے کہ ایسی صورت حال میں ظلم و ناانصافی، حقوق کی پامالی ، کا کیا نقشہ ہوگا ؟ بالخصوص ان ریاستوں کا جہاں پر مختلف مذاہب کے پیروکار بستے ہوں اور مختلف ثقافتیں جہاں کی آرائشگاہ ہوں
ہمارا ملک ہندوستان بھی انہی خصوصیات کا مالک ہونے کی وجہ سے خاص اسی پیرامیٹرز سے گزر رہا تھا۔
اسی لیے جب ملک باہری طاقت، انگریزوں کی حکومت سے آذادی حاصل کی تو آذادی کے متوالوں، اور قانون سازوں نے ، ساری دنیا کے آئین کا تجزیہ کرکے ایک ایسے آئین کی بنیاد ڈالی جس میں سبھی مذاہب کا احترام، شخصی آذادی اور پورے آزادانہ طور سے زندگی جینے کی آذادی کا خیال رکھا ۔ ذات پات ، رنگ و نسل ، مذہب کی بنیاد پر تفریق کاری جرم قرار پایا ، مزدوروں، غریبوں ، عورتوں کا استحصال کرنے کو یکسر طور پر خلافِ قانون ثابت کیا ۔ بچے اور عورتوں کی ترقی کے لیے خاص آئینی ڈھانچے بنانے ، زبان وادب اور ثقافت و کلچر کو فروغ دینے اور اس کی حفاظت کرنے کے لیے قانون تیار بنائے ۔ جس کو از سرے نو ، بنیادی حقوق، فنڈامنٹل رائٹس کے نام سے آرٹیکل بارہ سے لے کر بتیس تک ، 1949/میں آئین میں جگہ دے دی گئی ۔
اور اسے اتنا با اختیار بنایا کہ حکومت کا کوئی بھی شعبہ اس میں کچھ روبدل نہیں کر سکتا ہے اور کسی بھی شخص کی بنیادی حقوق کے ویلنس ہونے پر اسے یہ شخصی طاقت بخشی ہے کہ وہ ڈائیرکٹلی اس بابت میں کورٹ میں اپیل دائر کر سکتا ہے ۔
یہ سارا مربوطہ ، ہندوستان کی آیینی ، پارلیمنٹری حکومت کی اس کے شہریوں تئیں موجودہ تصویر ہے ۔ کہ ریاست میں کوئی بھی حکومت ہوں وہ اسی اصول و قواعد کی پابندی کے ساتھ ، اراکینِ حکومت گورنر کریں گے ۔
لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے ، اگر یہ کہا جائے کہ ملک کا نقشہ اپنے پرانے طرز تعمیر ، آذادی کے قبل کی تصویر کی طرف لوٹ رہا ہے تو یہ بے جا نہیں ہوگا ۔
اقلیتوں کے ملی ، معاشی ، سماجی شعبوں میں انضمحلال طاری ہوتا چلا رہا ہے ۔ ورک پلیس پر ، ذات پات، رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق کاری کرنا ایک عام مسئلہ بنتا چلا جا رہا ہے ۔
اقلیتوں میں مسلم اقلیتی برادری کا مسئلہ اور بام زوال ہے ، کبھی داڈھی کے نام پر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی ان کے پہناوے پر سوال قائم کرکے ، دہشت گردی کا ٹاییٹل تھوپ دیا جاتا ہے ۔
منٹلی ٹارچر
جیسے ، مائک پر آذان دینے کی پابندی
حجاب کے پہننے پر سوالیہ نشان ، داڑھی رکھ ، مسلم نوجوانوں کے آرمی جاب اور گورنمنٹ اے گریڈ جاب پر پابندی کا سطور ، بر خلاف پنجابیوں کو اس معاملے میں آذادی ، یکساں سول ڈریس کوڈ اور دو بچوں سے زیادہ کی پیدا کرنے کا معاملہ ، ان سارے معاملات کو مسلم اقلیتی طبقے سے جوڑ کر ، ان کو شب و روز منٹلی ٹارچر کرنا ، آیینی کی کون سی دفعات اس بات کی اجازت فراہم کرتا ہے۔
مدارس کا سروے
موجودہ معاملہ ، یوپی گورنمنٹ سے جوڑی ، یوگی حکومت سے ہے کہ اقلیتی ادارہ ، جو اس اقلیت سماج کے زبان و تہذیب، کلچر کے فروغ کی بات کرتا ہے ، اسے سروے کرانے کا ہے ۔
ریاست کے اندر ، حکومت سے مربوط یا غیر مربوط اداروں کا سروے کرانا یہ اثباتی طور پر درست و صحیح ہے اور یہ گورنمنٹ کا حق بھی ہے کہ جب وہ چاہے جس ادارہ کی جانچ و تفتیش کر سکتی ہے۔
لیکن یہ جانچ اثباتی طور پر نہیں بلکہ منفی نظریات کا حامل ہوکر روز بہ روز مسلم اقلیتی کے تعلیمی اداروں پر شک کا نشانہ باندھا جارہا ہے
سروے میں اتر پردیش حکومت نے ، یکم ستمبر کو اعلان کیا تھا کہ وہ ریاست کے غیر تسلیم شدہ مدارس کا سروے کرے گی تاکہ اساتذہ اور طلبا کی تفصیلات، نصاب، اور کسی بھی غیر سرکاری تنظیم سے اس کی وابستگی جیسی معلومات کا پتہ لگایا جا سکے۔
ملک کا ایک عام فہم انسان یہ سوال قائم کر سکتا ہے کہ مدارس کے علاوہ ملک میں اور بھی غیر تسلیم شدہ ادارے ملک کے مختلف مذہبی ، علاقائی تہذیب و زبان پر کام کر رہے ہیں، کیا ان پر بھی سروے کرانے کا حکم جاری ہوگا ۔
رزلٹ
ایک وقت کے لیے ، اثباتی طور پر گورنمنٹ کا یہ صحیح فیصلہ اسے کہا جائے تو نتیجتاً ریاست کے اندر چلتی ہوئی سارے اداروں کا ڈانٹا ان کے پاس جمع ہو جایے گا ۔ لیکن کیا گورنمنٹ ایڈیڈ اور غیر ایڈیڈ یوپی مدرسوں میں سائنس کے ٹیچروں کی تنخواہیں، جو آج کئی سالوں سے روکی ہوئی ہے ، کیا ان کے بھگتے کا بھی ڈانٹا وصولا جایے گا کہ وہ آج سالوں سے وہ کیسے اپنی زندگی گزر بسر کر رہے ہیں ۔ کیا ان کے مسائل کے حل پر بھی سروے ہوگا؟
مدارس
عربی زبان کالفظ ہے جسے ٹیچنگ پلیس “مطالعہ کی جگہ” سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس سے مراد کوئی بھی اسکول ہے، چاہے مذہبی ہو یا سیکولر۔ اس کا جڑ درس سے ملتا ہے۔ اربابِ مدارس نے اس ملک کی معیشت ، تعلیمی ترقی ، اور سماجی ، وطن پرستی ، وطن برادری ، اور اس ملک کو آذادی دلانے میں کافی اہم رول ادا کیا ہے ۔
ہندوستان میں مدرسے کی تاریخ
تاریخ کی کتابوں میں یہ رپورٹ کیا جاتا ہے کہ ہندوستان میں سب سے قدیم مدرسہ اجمیر میں 1192/ عیسوی میں محمد غوری کی فتح کے بعد قائم کیا گیا تھا۔
محمد بن تغلق نے اپنے دور حکومت میں ایک ہزار سے زائد مدارس کا قیام کیا ، جن کے اخراجات کا بند و بست شاہی خزانے سے کیا جاتا تھا۔
حوض خاص کمپلیکس ، دہلی میں سلطان فیروز شاہ تغلق کے مرقد کو مدرسے کی عمارت سے جوڑا بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔
یہ ہندوستان کی تاریخ کا مدرسے سے جوڑے ہوا حصہ ہے۔ جس حصے کو مذکورہ تاریخچہ سے الگ کرکے ، اس ملک ہندوستان کو ایک خوش حال ، آزادی یافتہ ملک کے طور پر دیکھا نہیں جا سکتا ہے ۔ مدارس ، تعلمی سکٹر کے اعتبار سے اس ملک کے قدیم ترین ڈھانچوں میں سے ایک پرانی فارم ہے ۔ جس کی بہتر صورت حال اب تک نا ہو پانا یہ ہم سب کی کمی اور ہماری تساہلت کی باعث ہے۔
مسائل ضرورت برائے سروے
مدارس کے تعلیمی ، عمارتی انتظامات اور مالی حالات میں بدامنی، سرکاری تنظیموں اور غیر الحاق شدہ ادارہ جات میں مدارس ٹیچرس کی کم حیثیت کا شمار داد، جدت، تحقیقات اور تجربات کے فقدان میں کمی، مدرسہ سے پاس آؤٹ ہونے والے طلباء کے لیے روزگار کے مواقع کا مسئلہ۔
امید ہے کہ یوپی گورنمنٹ مدارس کے ان ڈسمیریٹ پر سروے کراکر، مدارس اور طلباء مدارس کے لیے روشن مستقبل کی راہ فراہم کرے گی ۔ اور سروے کا اثباتی پہلو بھی یہی ہے کہ اگر کوئی ادارہ اپنے کسی ادارہ پر سروے کا حکم جاری کرتی ہے تو ان بنیادی نکات، اور کمیوں پر ضرور نظر رکھے اور اس کی بھر پور اصلاح کرے ۔
اور بالآخر اربابِ مدارس سے گزارش ہے کہ اپنے ان مسائل تئیں وہ گورنمنٹ سے خود سوال طلب کریں ، اور خاطر خواہ اپنے معاملات میں تبدیلی لائیں ۔