|
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں آج پروین شاکر کا یوم ولادت ہے۔اس موقع پر میں بطور خراج عقیدت اپنے ایک مضمون “خواتین کی شاعری میں احتجاج اور مزاحمت” سے ایک اقتباس پیش کررہی ہوں: “بلاشبہ تخلیقی سطح پر پروین شاکر کو شاعرات کی میر تقی میر کہنا بے جا نہ ہوگا۔وہ اردو شاعری کی پہلی توانا تانیثی آواز بن کر ابھریں۔ ہر چند کے اول اول وہ بھی روایتی قسم کی شاعرہ تھیں۔جن کے یہاں برہہ کی تڑپ تھی، پیا کے تئیں خود سپردگی کا والہانہ جذبہ تھا، پریتم کے رنگ میں رنگ جانے اور اس کی ذات میں خود کو فنا کردینے کی بے پناہ آرزو تھی اور بس۔ لیکن پروین شاکر نے جب مرد کا وہ چہرہ دیکھا جو حد درجہ مکرو دغا ، بے حسی اور بے مروتی کا پرتو تھا تو اس کے بعد اس کی رومانی اور برہہ کی آگ میں جلنے والی رادھا، سیتا اور ساوتری والی شاعری نے درگا کے تیور اختیار کرلیے۔ اس ذیل میں ان کی نظم”بشیرے کی گھر والی“کا ایک حصہ ملاحظہ ہو: “ہے رے تری کیا اوقات! پروین شاکر کو شدید احساس ہو چلا تھا کہ مرد نے عورت کو اپنے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنا رکھا ہے۔جسے وہ جب اور جیسے چاہے نچائے: یا قوس رکھے یا وہ ہمیں دائرہ کردے مرد کے ہاتھ میں عورت کی یہی عدم اختیاریت اور بے بسی کا خیال ان کی نظم ”نک نیم“ کا محور ومرکز ہے۔ وہ نظم ملاحظہ ہو:“لیکن مجھ کو گڑیا کہتے ہو/ ٹھیک ہی کہتے ہو/ کھیلنے والے سب ہاتھوں کومیں گڑیا ہی لگتی ہوں جو پہنادو، مجھ پہ سجے گا/ میرا کوئی رنگ نہیں/ جس بچے کے ہاتھ تھما دو/ میری کسی سے جنگ نہیں/ سوتی جاگتی آنکھیں میری/جب چاہو بینائی لے لو/ کوک بھرو اور باتیں سن لو/یامیری گویائی لے لو/ مانگ بھرو، سیندور لگاو / پیار کرو، آنکھوں میں بساو اور پھر جب دل بھرجائے تو / دل سے اٹھاکے طاق پر رکھ دو/ تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو/ ٹھیک ہی کہتے ہو۔” |