شموئل احمد کا دہلی میں انتقال، ممتاز اہل علم کا جذباتی خراج عقیدت
شموئل احمد کے انتقال پر کس نے کیا کہا؟
اپنی طرز کے انوکھے فکشن نگار شموئل احمد کا دہلی میں انتقال ہو گیا۔شموئل احمد 4مئی سنہ 1943میں بھاگلپور بہار میں پیدا ہوئے۔ 25دسمبر 2022 کو جب ساری دنیا کرشمس کی خوشیاں منا رہی تھی اسی وقت اردو فکشن کا ایک انوکھا کردار ہمارے درمیان سے چلا گیا۔ شموئل احمد کی شخصیت بڑی طرح دار تھی۔ وہ اپنی بے باکی کے لئے خاصے مشہور بلکہ بدنام تھے۔ ان کے افسانوں اور ناولوں نے خاصہ ہنگامہ برپا کیا۔ لنگی اور پروفیسر کا حرم جیسے متنازعہ افسانے لکھ کر انھوں نے بہت سے لوگوں کو ناراض بھی کیا۔وہ علم نجوم سے واقف تھے اور ستاروں کی گردش پر نظر رکھتے تھے۔ پیشے سے انجینئر تھے۔ رٹائرمنٹ کے بعد خود کو پوری طرح اردو فکشن کے لئے وقف کر دیا تھا۔ ہندی ادب میں بھی وہ مقبول تھے۔
ان کی کہانیاں ہندی رسائل میں بھی پابندی سے چھپتی تھیں۔ بگولے، سنگھار دان، القمبوس کی گردن، کوچہئ قاتل کی طرف، نملوس کا گناہ اور عنکبوت ان کے مقبول افسانوی مجموعے تھے۔ انھوں نے ندی، مہاماری، گرداب اور چمراسر جیسے ناول بھی لکھے۔اے دل آوارہ کے نام سے خود نوشت بھی لکھا۔ وہ اپنی زندگی اور فکشن دونوں میں بے باک تھے۔ ان کی بے باکی بہتوں کے لئے باعث پریشانی تھی۔ وہ لوگوں کو ناراض کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ انھیں بہت سارے اعزازات و انعامات سے نوازا گیا تھا۔ ان کی کچھ کہانیوں پر فلمیں بھی بنی تھیں۔ شموئل احمد کے انتقال کی خبر ملتے ہیں سوشل میڈیا پر بہت سے چاہنے والوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرنا شروع کیا۔ ان میں سے کچھ خاص لوگوں کے تاثرات ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
اپنے انداز کے نرالے اور بے باک افسانہ نگار شموئل احمد نے آج صبح دہلی میں آخری سانس لی۔ ایک عرصے سے بیمار تھے۔ لیور کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے۔: ممتاز افسانہ نگار و سابق سیکریٹری بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ، مشتاق احمد نوری
آہ کیا کہوں کیا لکھوں؟ لفظ ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ آ پ کے جانے سے زندگی میں ایک خلاء پیدا ہو گیا ہے۔: صدف اقبال، ممتاز شاعرہ و ادیبہ، بہار
شموئل احمد اردو فکشن کے لجنڈ ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں سے اردو ادب کے دامن میں بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ وہ ساری زندگی اپنی شرائط پر جیئے کبھی کسی سے نہیں ڈرے۔ جو لکھنا چاہا، جس پر لکھنا چاہا بلا خوف لکھا۔: ڈاکٹر عبد الحئی، سابق مدیر ماہنامہ اردو دنیا و فکر و تحقیق، نئی دہلی
شموئل احمد صاحب کا اب فون نہیں آئے گا۔ ان کی پُر اثر آواز کے لئے سماعت ترس جائے گی۔ اب تصور میں ان کے قہقہوں کا تعاقب کرتا رہ جاؤں گا۔: رفیع حیدر انجم، ممتاز شاعر و ادیب، ارریہ، بہار
آج لنگی والے نے کفن اوڑھ لیا۔ الوداع شموئل احمد الوداع: مصداق اعظمی
کہتے ہیں آج ذوق جہاں سے گزر گیا
کیا خوب آدمی تھا خدا مغفرت کرے
آہ شموئل احمد
اپنے رنگ کا البیلا انسان۔ جب تک جئے اپنی شرطوں پر جیئے۔ اردو فکشن کو نیا رنگ و آہنگ عطا کرنے والا فسوں کار ہمارے درمیان نہیں رہا۔: اویناش امن
الوداع شموئل احمد، باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔: عین تابش
اس شخص نے اگر زندگی میں صرف دو افسانے (۱) لنگی (۲) پروفیسر کا حرم ہی لکھا ہوتا تو بھی بڑا افسانہ نگار ہوتا: حسن امام رضوی، ممتاز صحافی، پٹنہ
اپنی ڈھب کے واحد افسانہ نگار شموئل احمد نہیں رہے۔ آج صبح انھوں نے آخری سانس لی۔ اردو فکشن کا بڑا نقصان: سہیل وحید، سابق مدیر ماہنامہ ”نیا دور“ لکھنؤ
تکلیف دہ خبر، واقعی ہمارے عہد کا ایک بڑا فکشن نگار رخصت ہو گیا۔ ان کی شخصیت میں جو خلاقی اور جوزندہ دلی تھی اس کی کمی محسوس کی جائے گی۔: ارشد عبد الحمید، ممتاز شاعر و ادیب، جے پور، راجستھان
ّآہ شموئل احمد، مشکل ہے کہ آپ پر تعزیتی میٹینگیں ہوں: زین شمسی، ممتاز صحافی و کالم نگار