شاعر یا گلوکار – غزل کا اصلی خالق کون
محبوب خان
یہ میری نہیں حبیب ولی محمد کی غزل ہۓ
میں چونک گیا ، جذبی صاحب مجھے مسکرا کر دیکھ رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں میری آٹو گراف بک تھی ۔ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے جب ۱۹۷۴ میں رخصت ہورہا تھا تب اساتذہ سے آٹوگراف کی یادگار لینے کا خیال آیا اور اسی سلسلے میں شعبہ اردو میں معین احسن جذبی صاحب کے کمرے میں ان سے آٹو گراف بک پر ان کی مشہور غزل “مرنے کی دُعایں کیوں مانگوں ” کا پہلا شعر لکھنے کی درخواست کی تھی ۔
یہ میری غزل کہاں ہۓ ۔۔؟
جذبی صاحب اب بھی مسکرا رہے تھے ۔ پھر انھوں نے پورا شعر لکھا اور دستخط سے آراستہ کرتے ہوۓ آٹو گراف بک مجھے واپس لوٹا دی ۔میں کچھ دیر کھڑا رہا پھر شکریہ کے رسمی کلمات کے ساتھ کمرے سے باہر نکل آیا ۔
شاعر یا گلوکار – غزل کا اصلی خالق کون
میں گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔ میرے کانوں میں جذبی صاحب کا جملہ گونج رہا تھا ۔۔واقعی کیا یہ غزل حبیب ولی محمد کی ہۓ ۔ ان دنوں کامن روم ، چاۓ خانوں ، کیفے ٹیریا میں ہر جگہ ریکارڈ پلیئر پر ” مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے ” حبیب ولی محمد کی آواز میں بجائ جارہی تھی ۔ ہاسٹل کی راہداری ، کمروں اور غسل خانے سے بھی حبیب ولی محمد کی نقل کرتی آواز میں غزل گائ جارہی تھی ۔ جدھر دیکھو ادھر حبیب ولی محد ، حبیب ولی محمد ۔۔
اس غزل کا اصلی خالق اور شاعر خاموش تماشائ کی طرح چپ چاپ تھا ۔ اب وھ کسی شاہراہ پر ، کسی چوراہے پر کھڑا ہوکر چیخ چیخ کر یہ اعلان تو نہیں کر سکتا تھا کہ لوگوں جس غزل کو تم حبیب ولی محمد کی غزل کہہ رہۓ ہو وھ میری ہۓ ۔
یہ میری نہیں حبیب ولی محمد کی غزل ہۓ
شاعر اور گلوکار میں اھم کون ہۓ ، یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہۓ ۔ بے شمار ایسی غزلیں اور نظمیں ہیں جن کو شاعر نے اپنے مفکرانہ جذبات سے آراستہ کیا مگر جب کسی کہنہ مسق گلوکار نے اسکو اپنی آواز سے زندگی بخشی تو وھ کلام جاوداں ہوگیا ۔ایسا کچھ معین احسن جذبی کے ساتھ ہوا ان کی یہ غزل اس سے قبل عصمت چغتائی کے ڈائریکٹر شوہر شاہد لطیف نے کشور کمار کی آواز میں فلم ” ضدی ” میں ریکارڈ کی تھی اور اسے دیو آنند پر فلمایا گیا تھا ۔ بعد میں اس گیت کو ۱۹۷۰ میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ” چاند سورج ” میں شامل کیا گیا جسکی موسیقی ہندوستان سے ۱۹۶۸ میں پاکستان گۓ موسیقار ناشاد نے دی تھی ۔
ناشاد کی ہندوستانی فلم بارھ دری کے گیت بہت مشہور ہوۓ تھے ۔ اتفاق ہۓ کہ اس فلم کے ڈائریکٹر شور لکھنوی اور ہدایت کار حسرت لکھنوی تھے۔ بہر حال یونیورسٹی ایریا میں حبیب ولی محمد کی غزل کی دھوم تھی ۔
مسلم یونیورسٹی کے ایک طالب علم جو شروع میں کمیونسٹ رحجان کے حامی تھے. اور آگے چل کر انگریزوں کی مخالفت میں سو دیسی تحریک چلائ ، یہاں تک کہ انھوں نے ایک سو دیسی اسٹور بھی کھول دیا ۔ اپنے باغیانہ تیور کی وجہ سے ان کا زیادہ تر وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزرا. وھ کانگریس کے صدر بھی رہے، ۔۔جیل می ہی انھوں نے ایک غزل لکھی ۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہۓ ۔
آپ سوچ رہے ہونگے یہ تو غلام علی کی غزل ہۓ ۔ در اصل غلام علی نے نے اس انداز سے غزل کو پیش کیا ہۓ کہ یہ لوگوں کے دلوں تک پہونچ کر ڈھڑکنوں میں سما گئ ۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ غزل جیل میں بند ایک بے بس شاعر کی فریاد ہۓ جسکو غلام علی نے زندگی دی ہۓ۔تو صاحبو دیکھیۓ آواز کا جادو کیسے کسی غزل کو مقبولیت کی اس انتہا کو لے جاتا ہۓ کہ وھ گلوکار سے منصوب ہو جاتی ہۓ لوگ اس غزل کو غلامی لی کی غزل کہتے ہیں ۔، ہندوستان میں بی آر چوپڑا نے اپنی فلم ” نکاح ” کے ایک منظر میں اسکی ریکارڈنگ استعمال کی ہۓ۔
جیل میں ہی لکھی ایک دوسری غزل کا ذکر بھی ہو جاۓ ۔ فیض احمد فیض کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ بہت انقلابی شاعری کی ہۓ۔ ابھی کچھ ماھ پہلے ہندوستان میں ان کی نظم ” ھم دیکھیں گے ” بہت مقبول ہوئ تھی ۔ بڑا شور مچا تھا اس نظم کو لیکر ، مگر یہاں ھم ان کی ایک کلاسیکی غزل کا ذکر
کریں گے جسے مہدی حسن نے گایا
گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے
یہ غزل بہت پرسوز انداز میں مہدی حسن نے جس انداز میں پیش کیا ہۓ وھ روح کی گہرائیوں تک پہونچتی ہۓ. اور مہدی حسن کی بہترین غزل مانی جاتی ہۓ ۔ ھم فرمائش یا تذکرہ بھی گلوکار کے نام سے کرتے ہیں ۔کوئ فیض احمد فیض کو یاد نہیں کرتا ۔یہ غزل بھی فیض کی غزل مانی جاتی ہۓ ۔
آج جانے کی ضد نہ کرو
اس مشہور غزل کے شاعر کا نام بہت کم لوگوں کو معلوم ہۓ ، یہ غزل فریدھ خانم نے اس انداز سے گائ ہۓ. کہ اسکو جب بھی سنیۓ فریدھ خانم کی آواز کے سحر میں ھم سب کھو جاتے ہیں ۔ اس غزل کو بہت سے دوسرے گلوکاروں نے بھی گایا ہۓ مگر یہ فریدھ خانم سے اس حد تک منصوب ہوگئ ہۓ. کہ کسی دوسرے کی آواز میں پسند ہی نہیں آتی ۔پاکستان میں یہ گیت جبیب ولی محمد کی آواز میں ۱۹۷۳ میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم ” بادل اور بجلی ” کے لیۓ ریکارڈ ہوا تھا ۔ ہندوستان میں اس گیت کو فلم ” اے دل ہۓ مشکل ” کے لیۓ ار جت سنگھ کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ہۓ ۔
اس گیت کے شاعر کا نام ہۓ فیاض ہاشمی ۔
فیاض ہاشمی کا طلعت محمود کی آواز میں گایا گیت ” تصویر ترا دل مرا بہلا نہ سکے گی –! بہت مقبول ہوا تھا ۔
ابھی تو میں جوان ہوں ۔۔
اس گیت کو سنتے ہی فورا ملکہ پکھراج کی تصویر سامنے آتی ہۓ ۔سچ تو ہۓ کہ اپنی کھنک دار سحر انگیز آواز میں اس غزل کو انھوں نے جس طرح پیش کیا ہۓ کوئ دوسرا شائدنہ کر سکے ۔ کچھ گلوکاروں نے کوشش کی مگر ملکہ پکھراج کی آواز کے جادو کے آگے ماند پڑ گۓ ۔ بچپن سے موسیقی کے شوق نے ملکہ کو ۱۶ سال کی کم عمر میں ہی ریاست جموں اور کشمیر کی درباری مغینہ کے رتبہ تک پہونچا دیا ، ان کی آواز میں گائ یہ غزل انھیں کی ہو جکی ہۓ۔ جبکہ اس غزل کے شاعر حفیظ جا لندھری کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔۔! آپ کا شاہنامہ اسلام مسلم دنیا کے اردو زبان کا بے مشال تحفہ ہۓ۔ پاکستان کا قومی ترانہ بھی حفیظ جالندھری نے لکھا ہۓ۔
اس کے علاوہ بہت ساری ایسی غزلیں اور نظم ہیں جن گلوکاروں نے زندگی عطا کی ہۓ۔ اختر شیرانی کی نظم ” اے عشق ہمیں برباد نہ کر ” گلوکارھ نیئرھ نور نے بہت پرسوز آواز میں گاکر اختر شیرانی جو کہنا چاھ رہے تھے اسے بیان کر دیا ۔ بیگم اختر نے اپنی آواز سے شکیل بدایونی کی غزل
” اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا “
کو بے حد مقبول کر دیا ۔ ان دنوں ایک گیت دھوم مچا رہا ہۓ اور اسکے بول بھی بہت شاندار ہۓ ۔
میرے رشک قمر ۔۔
شروع میں نصرت فتح علی خان نے اسے قوالی کے روپ میں پیش کیا ، پھر راحت بھائ نے طبع آزمائ کی اور پھر تو ہندوستان اور پاکستان کے ۲۱-۲۲ گلوکاروں نے اسکو اپنے اپنے انداز میں گایا ہۓ ۔اس گیت کے شاعر ہیں ۔۔فنا بلند شہری ۔۔ شاید کسی نے ان کا نام پہلے بھی کبھی سنا ہو ۔ یہ گیت فلم میں بھی لیا گیا مگر ہندوستانی شاعر منوج منتشر نے اسے نۓ انداز میں رچنا کرکے اسکو ہندوستانی بنا دیا ۔
ایسی بے شمار مشالیں
اب آپ خود سوچئے اور فیصلہ کیجیۓ کہ کسی غزل یا نظم کے لیۓ شاعر اھم ہۓ یا گلوکار ۔ایک شاعر زندگی کے حوادث ، سانحات اور جذبات کے نشیب و فراز کو اپنی آواز اور موسیقی کی آمیزش سے ، غزل کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہۓ ،اسکی آواز اور موسیقی کی سوز و آہنگ دل تک پہونچتی ہۓ ۔