سنسکرت شعریات کے خالق عنبر بہرائچی: کچھ یادیں کچھ باتیں
تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب، نئی دہلی
آج یعنی 7مئی کو عنبر بہرائچی کی برسی ہے۔ وہ سات مئی 2021کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ عنبر صاحب ایک کامیاب افسر تھے۔ اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں ایس ڈی ایم، اے ڈی ایم اور ڈی ایم کے عہدوں پر رہے۔ بنیادی طور پر شاعر اور ادیب تھے۔ لیکن اپنے زمانے میں ایماندار اور قابل افسر گردانے گئے۔ وہ 5جولائی 1949کو اتر پردیش کے بہرائچ میں پیدا ہوئے تھے۔ کورونا کی وبا کے دوران تقریباً 72سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔
ایں خانہ آفتاب است
عنبر بہرائچی کی اہلیہ شائستہ عنبر خود میں ایک بڑی شخصیت ہیں۔ آل انڈیا وومین پرسنل لاء بورڈ کی صدر ہیں۔ ملک گیر شہرت رکھتی ہیں۔ تھوڑی کنٹرورسیل بھی ہیں۔ لوگ انھیں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا قریبی تصور کرتے ہیں۔ اور وہ کبھی کبھی ان دو شخصیات کو بھی کھری کھری سنا دیتی ہیں۔ عنبر بہرائچی کی دونوں بیٹیا، بیٹا، داماد اور بہو سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہیں۔ سب کے سب مہذب اور سراپا انکسار۔ تربیت کا اثر ہوتا ہے۔
لکھنؤ میں ہے آخری آرام گاہ
عنبر بہرائچی نے اپنی اہلیہ کی مدد سے لکھنؤ کے ایک پاش علاقے میں خوبصورت مکان بنایا تھا۔ جسے شائستہ عنبر نے اپنی سلیقہ مندی سے گھر بنایا۔ ورنہ میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے بڑا اور خوبصورت مکان تو بنا لیا لیکن وہ گھر نہ بن سکا۔ لکھنؤ میں رائے بریلی روڈ پر ایک بڑا اسپتال ہے۔ نام ہے پی جی آئی۔ اسی پی جی آئی سے قریب میں عنبر صاحب نے اپنا مکان بنایا تھا۔ رٹائرمنٹ کے بعد اسی گھر میں مقیم تھے۔ اس مکان سے محض دو کیلومیٹر کی دوری پر شائستہ عنبر نے ایک مسجد تعمیر کی۔ مسجد عنبر۔ اسے ایک مرکز کی طرح تیار کیا۔ اسی عنبر مسجد کے احاطے میں عنبر بہرائچی آرام فرما ہیں۔ ان کی قبر مسجد سے چند قدم کی دوری پر ہے۔
سنسکرت شعریات کے خالق ہماری آخری ملاقات
فروری 2021میں راقم السطور اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ دہلی سے لکھنؤ گیا۔ شائستہ عنبر صاحبہ کو معلوم ہوا کہ میں لکھنؤ آ رہا ہوں تو انھوں نے حکم دیا کہ میں ایک لنچ ان کے ساتھ ضرور کروں۔ (ہمیشہ سے وہ مجھے شفیع بھائی کہتی ہیں اور میں انھیں اپنی بڑی بہن سمجھتا ہوں)۔ میری حیرت کی انتہا کہ جب میں ان کے گھر پہنچا تو عنبر صاحب خود منتظر تھے۔ حالانکہ ان دنوں اکثر وہ ذرا دیر پہلے کی باتیں بھول جاتے تھے۔ شائستہ صاحبہ نے انھیں بتا دیا تھا کہ شفیع ایوب کھانے پہ آ رہے ہیں تو وہ بار بار پوچھتے رہے کہ کب تک پہنچیں گے۔
شائستہ صاحبہ نے دسترخوان پر طرح طرح کے کھانے چن دئے۔ کباب، قورمہ، بریانی، کھیر، پراٹھے نہ جانے کیا کیا۔ لنچ بعد جب عنبر
صاحب کے ساتھ باتوں کا سلسلہ چلا تو انھیں بیس سال اور پچیس سال پہلے کی باتیں یاد آنے لگیں۔ وہیں سے میں نے دہلی فون کر کے ایڈوکیٹ خلیل الرحمن صاحب اور ممتاز ادیب بھائی حقانی القاسمی سے عنبر صاحب کی بات کرائی۔ یہ فروری 2021 کی باتیں ہیں۔ اسی سال مئی کی سات تاریخ کو عنبر بہرائچی سب کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
عنبر بہرائچی کی کتابیں
عنبر بہرائچی کے بارے میں کسی پڑھے لکھے شخص سے ذکر کیجئے تو فوراً بول اٹھے گا، کون؟ سنسکرت شعریات والے؟۔ عنبر بہرائچی کون؟ سنسکرت بوطیقا والے؟ سنسکرت شاعری والے عنبر بہرائچی؟ عنبر بہرائچی کی اصل پہچان وہی سنسکرت شعریات والی ان کی کتاب ہے۔ واضح رہے کہ عنبر بہرائچی نے کوئی غیر اہم کتاب نہیں لکھی ہے۔ نعتیہ شاعری کی بات آئے گی تو ان کی کتابیں ’روپ انوپ‘ اور ’لم یات نظیر ک فی نظر‘ سامنے آ جائیں گی۔ سنسکرت شاعری، سنسکرت بوطیقا، سنسکرت شعریات، مہا بھی شنکر من اور آنند وردھن اور ان کی شعریات جیسی کتابیں عنبر بہرائچی کو امر کر چکی ہیں۔ ہندی زبان میں ”اقبال ایک ادھیان“ کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ دوب، سوکھی ٹہنی پر ہریل، خالی سیپیوں کا اضطراب، گمنام جزیروں کی تمکنت، وغیرہ ان کے وہ شعری مجموعے ہیں جو عنبر بہرائچی کو زندہ رکھیں گے۔
عنبر بہرائچی کے بعد؟
عنبر بہرائچی نے اپنی آخری ملاقات میں مجھ سے اپنے کچھ کرم فرماؤں کے بارے میں کچھ ناقابل یقین باتیں بتائی تھیں۔ وہ بہت ناراض تھے اور کسی حد تک مایوس بھی تھے۔ ان کی نصف بہتر شائستہ عنبر صرف یہ چاہتی تھیں اور کوشش کر رہی تھیں کی عنبر میں زندگی کی للک پیدا ہو جائے۔ لیکن کچھ بڑے لوگوں کے دھوکہ دینے کے سبب وہ بہت بد دل تھے۔ ان کے انتقال کے بعد جب ان کی اہلیہ عدت کی مدت مکمل کر چکیں تو لکھنؤ میں ایک شاندار تعزیتی جلسہ منعقد کیا۔ عنبر مسجد کے کیمپس میں وہ جلسہ ہوا۔
دہلی سے میرے ساتھ جناب خلیل الرحمن ایڈوکیٹ بھی تشریف لے گئے۔ وہاں نریندر مودی حکومت میں مرکزی وزیر کوشل کشور اور ان کی اہلیہ (جو خود ایم ایل اے ہیں) شامل ہوئے۔ کوشل کشور جی سے عنبر صاحب کے گھریلو تعلقات ہیں۔ لکھنؤ کی بہت اہم شخصیات اس جلسے میں شریک ہوئیں۔ جناب اطہر نبی صاحب اور پروفیسر انیس اشفاق بھی موجود تھے۔
اس جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ایڈوکیٹ خلیل الرحمن صاحب نے وعدہ کیا کہ وہ دہلی میں ”سنسکرت شعریات“ اپنے خرچ سے دوبارہ شائع کریں گے۔ اس بزم میں ایڈوکیٹ خلیل الرحمن صاحب نے بڑی پُر مغز تقریر بھی کی۔ بعد میں دہلی میں اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں راقم نے جناب خلیل الرحمن صاحب کو بار بار یاد دلایا۔ خلیل صاحب خالص دلی والے ہیں، زبان کے پکے ہیں، صاحب ثروت ہیں، سخی ہیں، اور بہت سے پبلشرز سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میری جانکاری کے مطابق ابھی تک وہ کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ وجوہات صرف خلیل الرحمن صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔
تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب، نئی دہلی
سنسکرت شعریات کے خالق