“سرقہ سے ڈکیتی تک”
حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
غور طلب ہے کہ میری کتاب “نکات فکشن” ۲۰۱۳ میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس, نئ دہلی سے شائع ہوئی۔ “نکات فکشن” دوران طالب علمی تحریر کردہ مضامین پر مشتمل۔ اس کتاب میں “اردو ناول اور تانیثی ڈسکورس” کے عنوان سے ایک مضمون شامل کتاب ہے۔ یہ مضمون بہار اردو اکادمی کے ماہنامہ زبان و ادب” کے نومبر/۲۰۱۲ کے شمارہ میں بھی شائع ہو چکا ہے۔۔
میں حیرت زدہ ہوں کہ میرا مضمون “اردو ناول اور تانیثی ڈسکورس” کو بغیر کسی تبدیلی کے پاکستان کے ایک علامہ نے اپنی کتاب “اردو فکشن کی ساختیاتی قرآت اور دیگر مضامین” میں شامل کر لیا ہے۔ یعنی لفط بہ لفظ ۔۔۔حرف بہ حرف۔۔۔دلچسپ یہ کہ عنوان کو بھی ذرا سی زحمت نہ دی۔ مذکورہ کتاب شری نگر کے میزان پبلیشرز سے ۲۰۲۲ میں شائع ہوئ ہے۔ خبر ہے کہ کتاب کا پاکستانی ایڈیشن بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ اردو جس ملک کی قومی زبان ہو, اس سرزمین پر ایسا اخلاقی زوال سمجھ سے بالا تر ہے۔ افسوس! صد افسوس! کیا واقعی مملکت خداداد کی صورت اس قدر قابل رحم ہو گئ ہے؟ اس حالت زار پر بارگاہ الٰہی میں صرف دعا کی جا سکتی ہے۔ خدا ایسی زبوں حالی اور پسماندگی پر اپنا خاص کرم/رحم فرمائے۔۔۔آمین! ثم آمین۔۔۔!
ایک اور مضمون بعنوان “بیدی کے افسانوں میں سماجی شعور” بھی میرے ایک دوسرے مضمون بعنوان “راجندرسنگھ بیدی کی تخلیقی انفرادیت” (مطبوعہ, سہ ماہی فکرونظر, علی گڑھ, جون/ ۲۰۱۷) کا چربہ ہے۔ اس مضمون میں موصوف نے ذرا سی تبدیلی کی ہے۔۔
اعلی تعلیم یافتہ ڈاکٹر مجاہد حسین صاحب گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہور میں اردو کے استاد (لیکچرر)ہیں۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی پروقار ڈگریاں حاصل کی ہیں۔ انہوں نے مختلف اداروں میں اپنی تدریسی خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی فیس بک ٹائم لائن پر پوسٹ کی گئ تصویروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ادبی جلسوں اور سیمیناروں میں بھی ہمہ تن غرق رہتے ہیں۔ اسٹیج سے تبلیغ آمیز تقریر بھی کرتے ہیں۔۔ صاحب نے اپنی کتاب کی دھوم دھام سے رسم رونمائی بھی کی۔۔خدا جانے یہ رسم رونمائی ہے یا رسم رسوائ۔۔
کتاب کے پیش لفظ کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت پروفیسر ناصر عباس نیر صاحب کے شاگرد ہیں۔ موصوف پروفیسر ناصر عباس نیر صاحب کے شاگرد رشید ہونے پر نازاں ہیں اور ہونا بھی چاہیے۔۔۔ایسے استاذ پر بھلا کسے فخر نہ ہو۔۔ ان کی ادبی شخصیت یقینی طور پر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ شاگرد کے کارنامے پر انھیں شدید تکلیف ہوگی۔ پیش لفظ “ذرا سی بات” کے تحت موصوف نے اپنے استاذ محترم کو نہایت انکساری, عاجزی اور عقیدت مندی سے یاد کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتاب کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے:
“اللہ تعالٰی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھ میں علم کی جس جستجو کو فروغ دے کر ڈاکٹر ناصر عباس نیر ایسے جید استاذ کا شاگرد کیا۔ اس شاگردی پر جتنا نازاں ہوا جائے, وہ کم ہے۔ انہوں نے ایم فل کے مقالے کی تیاری کے سلسلے میں نہ صرف میری راہ نمائ فرمائ بلکہ تحقیق و تنقید کے پرخار میدان میں رغبت دلانے کے ساتھ ساتھ میری پزیرائی بھی کی۔ اس ضمن میں ان کا ممنون احسان ہوں۔” (ص:۱)
* اس حوالے سے تمام تصویریں بطور ثبوت پوسٹ کر دی گئ ہیں۔ میں سوشل فلیٹ فارم پر اس طرح کے مسائل کا اظہار/انکشاف مناسب نہیں سمجھتا لیکن مسئلے کی سنجیدگی کے پیش نظر مجبور ہوں۔۔۔
ڈاکٹر محبوب حسن
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ اردو
گورکھپور یونیورسٹی
اتر پردیش, انڈیا
Mujahid Husain ka jawab facebook pe.
Mujahid Hussain
Zubair Shadab جناب محبوب حسن میرے خلاف فیس بک پر پوسٹ لگا کر میری کردار کشی پر اتر آۓ۔آپ کو کتنے ہی مضامین میں نے انڈیا کے رسائل میں چھپوانے کے لیے بھیجے اور ان کا آپ نے آج تک کوئی اتا پتا نا دیا۔غائب ہی ہو گۓ۔آپ نے برسوں پہلے پاکستان سے تھیسسز بھیجنے کا کہا تھا، مجھے آپ کی یہ بات پسند نہیں آئی اور آپ سے قطع تعلق ہوگیا،کیوں کہ اس سے پہلے آپ کو بھیجے گۓ مضامین کا بھی آپ نے کچھ نا بتایا تھا۔میری کتاب سری نگر سے شائع ہوئی تو آپ کو پتا چلا کہ یہ مضامین میں کتابی صورت میں شائع کرا چکا ہوں جو آپ کو کبھی رسائل میں چھپوانے کے لیے بھیجے تھے جو شاید آپ اپنی کتاب میں شائع کرا چکے۔آپس کی بات ہے مجھے ابھی پتا چلا ہے کہ آپ کی کوئی کتاب بھی ہے”نکات سخن” کے نام سے۔اب آپ مجھے خوار کرنا چاہتے ہیں اور ایسی پوسٹیں لگا کر اپنی علمی قابلیت ظاہر کرنا چاہتے ہیں جب کہ آپ خود ایکسپوز ہو چکے ہیں۔مجھے انڈیا سے دوستوں نے بتا دیا تھا آپ کے کارناموں کا۔آپ کی اصلیت یہاں پاکستان میں بہت سے لوگ جانتے ہیں جن سے آپ رابطے میں رہے اور مقالات و مضامین کے تبادلے کی فرمائش کرتے رہے ہیں۔ارسلان بھائی کو تو آپ جانتے ہوں گے۔اب یہ نہ کہہ دینا میں پاکستان میں کسی کو نہیں جانتا