پرسنل لا بورڈ کی طرز پر لا کمیشن میں یو سی سی کے حق میں اپنی رائے بھیجے گا پسماندہ سماج
لا کمیشن میں رائے کا اندراج
نئی دہلی، یونیفارم سول کوڈ پر ملک بھر میں مختلف سماجی تنظیمیں سرگرم ہیں۔ کئی مسلم تنظیمیں یو سی سی کو شریعت میں دخل اندازی مان رہی ہیں۔ اس کی مخالفت میں لا کمیشن میں اپنی رائے درج کرا رہی ہیں۔ مسلم پرسنل لا بھی ان میں شامل ہے۔ وہیں پسماندہ سماج نے یو سی سی کے حق میں اجتماعی طور پر سجھاؤ بھیجنے کی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر فیاض احمد فیضی کی تحریک
اس سلسلے میں خاص طور پر پسماندہ تحریک میں سرگرم ادیب، مترجم اور سماجی کارکن ڈاکٹر فیاض احمد فیضی نے ایک تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر فیضی نے بتایا کہ میں دیشج پسماندہ سماج سے آتا ہوں جس کی تہذیب و ثقافت خالص ہندوستانی ہے۔ یہ واضح ہے کہ پرسنل لا کے معاملے میں فرد واحد یا سماج اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق ہی عمل کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو دیشج پسماندہ مسلمانوں کے مقامی تہذیب و ثقافت سے میل نہیں کھاتی ہیں۔ جیسے ایک سے زائد عورتوں سے شادی۔ ایسے ماں باپ جن کی صرف بیٹیاں ہیں وہ اپنا خاندانی پراپرٹی اپنی بیٹیوں کو نہیں دے پاتے ہیں۔انھیں خاندانی دھن دولت کا ایک حصہ اپنے بھائی یا خاندان کے مرد حضرات کو دینا پڑتا ہے۔
شریعت میں عورتوں کی پراپرٹی کا معاملہ
شریعت میں خاندانی خواتین کو پراپرٹی میں صرف ایک چوتھائی حصہ پانے کا ہی حق ہے۔ جبکہ اسلامی اصول ”عرف“ کے مطابق ایک شخص اپنے مقامی تہذیب و ثقافت کی پاسداری اس شرط کے ساتھ کر سکتا ہے کہ اسلام کے کسی بنیادی اصول سے ٹکراؤ نہ ہوتا ہو۔ انھوں نے کہا کہ ساتھ ہی ایسی کئی باتیں بھی ہیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں سے ٹکراتی ہیں۔ جیسے دادا کی زندگی میں باپ کے انتقال کے بعد پوتے کو خاندانی پراپرٹی میں کوئی حق نہیں ملنا۔
شادی بیاہ میں شریعت قانون
شادی میں ”کوفو“ کے شریعت اصول کے مطابق جات اور نسل کی بنیاد پر تفریق کرنا۔ پھر بھی نہ چاہتے ہوئے بھی اسے قدیم دور کے عربی یا ایرانی تہذیب والے قانون کی اطباع اسلامی شریعت اور پرسنل لا کے نام پر کرنا پڑتا ہے۔
مشترکہ خاندان کی بھارتی روایات
ڈاکٹر فیاض احمد فیضی نے کہا کہ ایک اہم بات یہ ہے کہ دیشج پسماندہ مسلمان بھی مشترکہ خاندان کے قدیم ہندوستانی روایات کا حامی ہے۔ لیکن مشترکہ خاندان کے لئے صرف ہندو سماج کو ہی انکم ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہے۔ مشترکہ خاندان کے ہندوستانی روایات کی پاسداری کرنے کے باوجود دیشج پسماندہ مسلمانوں کو ٹیکس میں چھوٹ نہیں ملتا ہے۔ یہ مذہب کی بنیاد پر تفریق کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ آئین کا آرٹیکل 15کے مطابق یہ مناسب بات نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ مندرجہ بالا تفریقات کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں قانون لاگو ہے اسی طرح پرسنل لا میں بھی قانون لاگو ہوگا تو دیشج پسماندہ سماج کا بھلا ہوگا۔
اس سے مندرجہ بالا مذہبی اور تہذیبی تفریقات بھی دور ہوں گی۔ اس طرح یو سی سی کا لاگو ہونا ہندوستانی اصل مسلمانوں کے حق میں مناسب ہوگا۔