Urdu News

مجھے فخر ہے کہ میں نے حکیم عبد الحمید کو دیکھا تھا:  پروفیسر ابن کنول

ظہیر احمد برنی، احمد علی برقی اعظمی، جی آر کنول،شریف حسین قاسمی، عقیل احمد اور مائک پر ابن کنول

غالب اکیڈمی کے بانی حکیم عبد الحمید کے ایک سو چودہویں یوم پیدائش کے موقع پر غالب اکیڈمی میں ایک جلسہ کا اہتمام کیا گیا۔

اس موقع پر پروفیسر ابن کنول نے حکیم عبد الحمید کی سوانح اور خدمات پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں نے حکیم صاحب کو دیکھا تھا۔حکیم عبد الحمید جیسی شخصیت پیدا ہوتی رہے تو قوم کی جہالت دور ہوجائے۔

حکیم صاحب کے تعلیمی اداروں اورفلاحی منصوبوں پر نظر جاتی ہے تو نظر آتا ہے کہ فرد واحد نے پورا تعلیم آباد آباد کردیا۔ کروڑوں کی آمدنی کے باوجود اپنی ذات پر کچھ خرچ نہیں کیا۔

حکیم عبد الحمید نے اپنے فولادی ارادے کے سبب تمام اداروں کو قائم کیا۔ انھوں نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کی طرف خاص توجہ دی۔حکیم صاحب نہ کہیں ٹھہرے اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھا،مستقل تعلیمی میدان سر کرتے رہے اور ایک یونیورسٹی بنا ڈالی۔

حکیم صاحب غالب نواز تھے غالب اکیڈمی مزار غالب کے پاس قائم کرکے غالب نوازی کا حق ادا کیا۔ ناقدین اور محققین کی طرح غالبیات کے ضمن حکیم صاحب کا نام لیا جائے گا۔ وہ خود ادارہ تھے۔ دودرجن سے زیادہ ادارے قائم کیے۔انھوں نے پوری زندگی میں کار ہائے نمایاں انجام دے۔

  اس موقع پر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد جو قیامت رونما ہوئی زندگی نہہ وبالا ہوگئی۔ایسے دور میں حکیم صاحب نے ملک وملت کی رہنمائی کا بڑا اٹھایا۔

بغیر کسی سرکاری مدد کے آپ نے ہمدرد دواخانے کی بنیاد ڈالی اور خدا نے ایسی مدد کی کہ اسی کی آمدنی نے ایسے تعلیمی ادارے قائم کئے جن کی افادیت کا آج زیادہ احساس ہوتا ہے۔

حکیم صاحب کی شخصیت اور ان کے کارناموں کا ذکر آج بھی ہمیں بامقصد زندگی گزارنے کا راستہ دکھاتا ہے۔

 اس موقع پر حکیم خالد صدیقی کی عدم موجودگی میں ان کا مقالہ ڈاکٹر عقیل احمد نے پڑھا۔خالد صدیقی نے اپنے مقالے میں کچھ نئے انکشافات کئے جیسے ڈاکٹر ذاکر حسین کے وائس چانسلر شپ کے زمانے میں دس ہزار روپیے بھجوائے تھے جب سونے کی قیمت75.80روپیے تھی۔اسی طرح اسلاملک کلچر سینٹر کی زمین خریدنے کے لیے ستر لاکھ روپیے ادا کئے۔

 جلسے کی صدارت ڈاکٹر جی آر کنول نے کی۔انھوں نے کہا کہ حکیم صاحبؒ  کامل اور مرد مومن تھے۔حکمت،تعلیم اور ادب ان کے لیے میدان تھے جن میں چل کر وہ قوم اور دنیا کی آخری عمر تک خدمت کرتے رہے۔وہ قدیمی اقدارکے بھی قائل تھے اور عہد نو کی خصوصیت کو بھی اپنانا چاہتے تھے۔ ایسے بے مثال انسان اس دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں اور صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔جلسے میں بڑی تعداد میں طلبا اساتذہ موجود تھے۔

Recommended