Urdu News

زمیں بوس ٹوئن ٹاور

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 ۲۸؍ اگست ۲۰۲۲ء کو سارے ٹی وی چینل کی بریکنگ نیوز ٹوئن ٹاور کا انہدام تھا، مختلف خبر رساں ادارے جن میں بی بی سی کے نمائندے بھی شامل تھے، ڈھائی بجے سے قبل پل پل تیاریوں کی رپورٹنگ کر رہے تھے اور ڈھائی بجے دن کے بعد تاش کے پتوں کی طرح بکھرے ان دو عمارتوں کی ، جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ قطب مینارسے بھی سومیٹر بلند عمارتیں تھیں، اسے ٹوئن ٹاور کا نام اس لیے دیا گیا تھا۔

 یہ دو فلک بوس عمارتوں پر مشتمل تھا، ایک میں بتیس اور دوسرے میں انتیس منزلیں تھیں، ان کی تعمیر جدید طرز کے مطابق دہلی سے منسلک نوئیڈا کے سیکٹر ۹۳اے میں سوپر ٹیک نامی کمپنی نے کروایا تھا، اس کو منہدم کرانے کے لیے لمبی قانونی لڑائی چلی، سپریم کورٹ تک بات پہونچی، فیصلہ ہوا، نظر ثانی ہوئی اور قانون وقواعد کی ان دیکھی کرکے تعمیراس عمارت کو منہدم کرنے کا فیصلہ اپنی جگہ بر قرار رہا۔

 منہدم کرنا بھی اتنا آسان نہیں تھا، قریب میں بہت ساری عمارتیں تھیں، جن کو نقصان پہونچنے کا خطرہ تھا، چنانچہ محفوظ انہدام کی کاروائی کے لیے ایک کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں، اس نے اس عمارت کو گرانے کے لیے سینتیس سو کلو گرام دھماکہ خیز مادہ استعمال کیا،نوہزار آٹھ سو سوراخ دونوں عمارت سیان اور اپیکس ٹاور میں کئے گئے تھے، یہ سوراخ انگریزی کے حروف وی(V) کی طرح تھے، ہر سوراخ میں ایک سو سیتیس سے تین سو پینسٹھ گرام تک آتشی مادہ ڈالا گیا اور صرف نو سکنڈ میں دو نوں عمارتیں زمیں بوس ہو گئیں۔

ٹوئن ٹاور کو بنانے میں تقریبا آٹھ سو کڑوڑ روپے خرچ ہوئے تھے اور اس کے گرانے میں پچپن کروڑ اٹھارہ لاکھ روپے خرچ ہوئے، یہ خرچ بھی سوپر ٹیک کو ہی دینا ہوگا، آس پاس کی عمارتوں کو نقصان اور ٹوئن ٹاور کے مکینوں کے نقصان کی تلافی کی ذمہ داری مع سود بھی اسی کمپنی پر ہے۔ عمارت کو منہدم کرنے کی جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، اس میں یہ عمارت سیدھے بیٹھتی جا رہی ہے، انجینئر نگ کی اصطلاح میں اسے واٹر فال امیجنگ تکنیک کہتے ہیں۔اس تکنیک میں عمارت گرتے وقت پانی کی طرح نیچے کو آجاتی ہے، اس کا ملبہ ارد گرد میں نہیں پھیلتا ہے۔

مجھے یہ منظر دیکھ کر قیامت کا منظر یاد آگیا، جب آسمان روئی کے گالے کی طرح ہوجائے گا اور ساری عمارتیں ڈھہہ جائیں گی اور زمین اندر کی چیزیں باہر پھینک دے گی او سب کچھ سکنڈوںمیں ختم ہوجائے گا، جس کے بنانے میں زمانے لگے ، سب نیست ونابود ہوجائیں گے، دوسرا سبق اس میں مکافات عمل کا بھی ہے ، ضابطہ اور قانون کی پابندی نہ کرنے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔

یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، اسے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ، ہر وقت آپ دنیاوی سی سی کیمرے کے ساتھ اللہ کی نگرانی میں ہیں ، سی سی کیمرے کے حدود مقرر ہیں، اس سے آگے وہ منظر کو محفوظ نہیں کر سکتا، مگر اللہ غیر محدود ہے، اس کی نگرانی ہر جگہ خلوت وجلوت میں ہے۔غلطیوں کی سزا ملنے میں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔

 اس انہدام سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر نوئیڈا ڈولپمنٹ اتھارٹی نے اس پر روک پہلے ہی کیوں نہیں لگائی، اگر قانون کے خلاف ہو رہی تعمیرات کو نوئیڈا اتھارٹی پہلے دن روک دیتی تو اس کی نوبت ہی نہیں آتی، تو کیا اس سے یہ سمجھاجائے کہ اتھارٹی کے لوگ سوپر ٹیک والوں کے ہاتھ بکے ہوئے تھے جس کی وجہ سے وہ خاموش تماشائی بنے رہے ۔

 اتر پردیش کی یوگی حکومت کو بھی اس کا احساس ہے ، اس لیے اس نے چھبیس افسران کی فہرست جاری کی ہے، جن پر کارروائی ہونے کا امکان ہے، سوپر ٹیک  لیمیٹڈ کمپنی کے ڈائرکٹر اور ڈرافٹ مین پر بھی سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔

 وجہ جو بھی ہو ٹوئن ٹاور کا انہدام ایک تاریخی واقعہ ہے ، ہندوستان میں اس قدر اونچی عمارت پہلے نہیں گرائی گئی تھی ، اس سے قبل کیرالہ میں ایک عمارت منہدم کی گئی تھی، جس کی اونچائی ٹوئن ٹاور سے نصف تھی۔

Recommended