ہر سینہ آہ ہے ترے پیکاں کا منتظر
ہو انتخاب اے نگہِ یار دیکھ کر
نماز آتی ہے مجھ کو نہ وضو آتا ہے
سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تو آتا ہے
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ساری دنیا یہ سمجھتی ہے کہ سودائی ہے
اب مرا ہوش میں آنا تری رسوائی ہے
وقارِ خون شہیدانِ کربلا کی قسم
یزید مورچہ جیتا ہے جنگ ہارا ہے
شکوہ صیاد کا بے جا ہے قفس میں بلبل
یاں تجھے آپ ترا طرزِ فغاں لایا ہے
تجھ سے کیا صبح تلک ساتھ نبھے گا اے عمر
شبِ فرقت کی جو گھڑیوں کا گزرنا ہے یہی
دورِ حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
خاک جینا ہے اگر موت سے ڈرنا ہے یہی
ہوسِ زیست ہو اس درجہ تو مرنا ہے یہی
بے خوف غیرِ دل کی اگر ترجماں نہ ہو
بہتر ہے اس سے یہ کہ سرے سے زباں نہ ہو
اس کی رسوائی کا بھی آیا نہ تجھ کو کچھ خیال
کس قدر بے باک تو اے دیدۂ تر ہو گیا
جوہرؔ اسیریوں کی کوئی انتہا بھی ہے
آزاد اک نظامِ پریشاں بنائیے
ہے کس کے بل پہ حضرتِ جوہرؔ یہ روکشی
ڈھونڈیں گے آپ کس کا سہارا خدا کے بعد