Urdu News

ذوقی ایسے فن کار تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ادب کی آغوش میں گزارا: دانشوران

المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام یک روزہ سیمینار بعنوان:مشرف عالم ذوقی: حیات و خدمات کا انعقاد

المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام یک روزہ سیمینار بعنوان:مشرف عالم ذوقی: حیات و خدمات کا انعقاد

المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ، دربھنگہ کے زیر اہتمام یک روزہ سیمینار بعنوان:مشرف عالم ذوقی: حیات و خدمات کا انعقاد سی ایم کالج کے کرپوری ٹھاکر آڈیٹوریم میں اتوار کو کیا گیا۔اس موقع پر پروگرام میں شامل مہمانان کا استقبال چادرپوشی اور گلدستہ پیش کر کیا گیا پروگرام میں پہلا حصہ سیمینار کا تھا جو دن کے دس بجے سے بارہ بجے تک رواں دواں ہو کر اختتام پذیر ہوا جس کی صدارت پروفیسر سید احمد قادری فرما رہے تھے۔

 مہمان کے طور پرڈاکٹر مشتاق احمد، اردو اکیڈمی کے سابق سکریٹری مشتاق احمد نوری،رسالہ ”ثالث“ کے مدیر اقبال حسن آزاد، شمیم قاسمی (پٹنہ)، ریحان غنی (پٹنہ)، انوارالحسن وسطوی (حاجی پور)، سلطان آزاد (پٹنہ)کامران غنی صبا (پٹنہ)شامل تھے۔روزنامہ قومی تنظیم کے مدیر اعلیٰ ایس ایم فرید نے کہا کہ مشرف عالم ذوقی اپنی بے باک تحریروں کے لئے جانے پہچانے جاتے تھے۔ ہرطرح کی ظلم و زیادتی، سماجی، سیاسی برائیوں اور تہذیبی گراوٹ کی طرف عوام اور پڑھے لکھے طبقوں کا دھیان متوجہ کراتے رہتے ہیں۔

 ان خوبیوں کی وجہ سے قارئین ان کی تحریروں کو بڑے دھیان سے پڑھتے ہیں۔اپنے بے لاک اظہار خیال کے لئے وہ ہمیشہ سرخیوں میں بنے رہتے ہیں۔سیمینار کے اجلاس میں اپنا مقالہ مشرف عالم ذوقی کے نام منسوب کرتے ہوئے مانو ریجنل سینٹر کولکاتہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امام اعظم نے نہایت منصفانہ انداز میں مشرف عالم ذوقی کے ادبی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا وہ اردو فکشن کا ایک منور ستارہ تھے اردو ناول ہو یا افسانہ دونوں میں مشرف عالم ذوقی اپنے فکر و فن کے اعتبار سے بھی منفرد و ممتاز شناخت کے حامل ام  ان کا ادبی ورثہ جو پانچ ناولوں،دس افساانوں کے مجموعوں اور دس نثری کتابوں پر محیط ہے ان کی بلند قامتی کا احساس دلانے کے لیے کافی ہے انہوں نے ایک سو سے زائد ڈاکومینٹرز پر بھی کام کیا جب کہ 1987 سے دور درشن اور مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے مختلف پروگرام کرتے آرہے تھے وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی تحریریں ہمیں آج بھی جھنجھوڑتی ہیں سماج و معاشرے کے تئیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی رہتی ہیں۔

 امام اعظم نے کہا مشرف عالم ذوقی منفرد اس لحاظ سے ہیں کہ لگاتار کئی ناولوں میں ملک کے سیاسی منظر نامے کو موضوع بنایا اور ممتاز اس حیثیت سے کہ سیاسی منظر نامے کو دلکش فنی پیکروں میں ڈھالا ہے امام اعظم نے وقت کی کمی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کے ایک ناول مرگ انبوہ اور افسانوں کے ایک مجموعہ لینڈ اسکیپ کے گھوڑے کو اپنی گفتگو کا محور بنایا انہوں نے جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ ذوقی کے حیات میں ہی میری ادارت میں شائع ہونے والے رسالہ تمثیل نو کے شمارہ جولائی 2019 – دسمبر 2020 میں ان کی فکشن نگاری پر ایک خصوصی گوشہ شائع کیا گیا تھا جس سے ان کے ناولوں اور کہانیوں کے چند منفرد پہلو سامنے آتے ہیں ان کی رحلت سے اردو فکشن نے ایک انوکھا فن کار کھو دیا ہے پروفیسر محمد آفتاب اشرف صدر شعبہ اردو للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ نے سیمینار کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ روزنامہ قومی تنظیم کے گولڈن جبلی پروگرام کے اہتمام کے لئے مدیران و جملہ وابستگان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں بالخصوص پروگرام کے کنوینرنو جوان صحافی ڈاکٹر منصور خوشتر کو دلی مبارک باد دیتا ہوں کہ مشرف عالم ذوقی جیسے عظیم فن کار کے نسبت سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے۔

مشرف عالم ذوقی اردو اور ہندی زبان و ادب بالخصوص فکشن نگاری کا معتبر نام ہے انہیں برصغیر ہند و پاک سمیت پوری ادبی دنیا میں انہیں غیر معمولی اہمیت اور مقام خاص حاصل تھا ان کا تعلق بہار کے ایک علمی و ادبی خانوادہ سے تھا ان کے گھر میں مشاعرہ ہوتا تھا میر تقی میر،غالب،فیض،جگر اور ابراہیم ذوق کے اشعار شوق سے سنائے جاتے تھے ساتھ ہی ان کے والد گرامی مشکور عالم بصیری کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے بقول ذوقی داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا انہوں نے بچپن میں اپنے والد سے سن رکھی تھی ادبیات میں شیکسپیئر اور ملٹن کی تحریروں سے انہیں آشنائی بھی اسی ایام طفلی میں ہو، گویا ان کا گھر علم و ادب کا گہوارہ تھا جس کی وجہ کر ذوقی کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھنے میں بہت مدد ملی اور محض 17 سال کی عمر میں ناول عقاب کی آنکھیں اور 20 سال کی عمر تک چار قابل ذکر ناولوں کے مصنف ہو گئے پھر تسلسل کے ساتھ ان کا ادبی ورثہ تخلیقی سفر برق رفتاری سے تادم حیات جاری رہا ۔

مشرف عالم ذوقی کا ادبی ورثہ تخلیقی سفر تقریباً چار دہائیوں پر مشتمل تھا اس دوران انہوں نے ناول،افسانے،ڈرامے،خاکے اور تنقیدی مضامین کے علاوہ ٹیلی فلمیں اور ٹی وی سیریلز بھی تحریر کئے بشمول ہندی اور اردو مختلف موضوعات پر ان کی چار درجن تصانیف ہیں جب کہ ٹیلی فلمیں،ٹی وی سیریلز اور ڈاکومنٹری فلموں کے اسکرپٹ اس کے ماسوا ہیں ظاہر ہے اس قدر وسیع و قیع  کارنامے اردو ادب سے بے انتہا شغف اور محبت کے بغیر انجام نہیں دئے جا سکتے تھے ۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ ذوقی ایسے فن کار تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر دن ادب کی آغوش میں گذارا خلیق الزماں نصرتؔ نے اپنے مقالہ میں کہا کہ مشرف عالم ذوقی اس طرح کی پابندیوں سے آزاد ہیں۔ وہ جیسا سوچتے ہیں اپنی تحریر کو ویسا ہی پیش کرتے ہیں ان پر کسی کا دباؤ نہیں ہے اس لیے وہ اپنے ناول میں حقیقت کا ساتھ نہیں چھوڑتے ہیں ذوقی سرکاری ملازم نہیں ہیں ان پر کوئی دباؤ نہیں ہے ان کے چھ ناول یکے بعد دیگرے منظر عام پر آئے اور سبھوں میں انہوں نے اپنا آزاد انہ خیال سمو دیا ہے۔

کنوینر نوجوان صحافی ڈاکٹر منصور خوشتر نے کہا کہ مشرف عالم ذوقی اردو کے ان اہم ناول نگاروں تھے۔ جنہوں نے جو کچھ لکھا بہت سوچ سمجھ کر اور پوری ذمے داری کے ساتھ لکھا۔”نیلام گھر“ شہرچپ ہے“ ”بیان“”پو کے مان کی دنیا“ ”پروفیسر ایس کی عجیب داستان وایا سونامی“ ”لے سانس بھی آہستہ“وغیرہ ان کے مشہور ناول ہیں۔

ان میں موضوع کے اعتبار سے ”بیان“کو کافی شہرت ملی ہے“سیمینار میں سلطان آزاد نے اپنا مقالہ بعنوان مشرف عالم ذوقی ایک قد آور فنکار پیش کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ بہار اردو ادب کا ایک قدیم گہوارہ رہا ہے یہاں شاعری کے علاوہ تخلیقی نثر میں اردو فکشن اور ناول نگاروں کی شناخت پوری اردو دنیا میں ہوئی ہے اردو ناول کا جب ذکر آتا ہے تو اس صوبہ بہار اپنی خصوصی شناخت بنانے والوں میں اختر اورینوی،سہیل عظیم آبادی،شین مظفر پوری،الیاس احمد گدی اور مشرف عالم ذوقی وغیرہم کے اسمائے گرامی ادبی دنیا میں مشہور و معروف ہوئے ذوقی بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے نمائندہ اور عالمی شہرت یافتہ اردو فکشن نگار اور ناول نگار تھے وہ اردو کے ان چند مشہور افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں میں تھے جنہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ کم وقت میں بہت سارے افسانے اور ناول لکھنے باذوق قارئین کی داد تحسین حاصل ہوئی اور ناقدین ادب نے بھی خوب سراہا مختصر یہ کہ مشرف عالم ذوقی برصغیر کے صاحب طرز ادیب ناول نگار،اسکرپٹ رائٹر اور فکشن نگار تھے انہوں نے اپنی تحریروں میں برصغیر کے حالات خصوصی طور پر اقلیتی طبقوں کے مسائل اور سماجی و انسانی سروکاروں کی بھرپور اور سچی ترجمانی کی ہے سیمینار میں خلیق الزماں نصرات نے بھی مقالہ پیش کیا ۔

صدارتی خطبہ میں سید احمد قادری نے جہاں روزنامہ قومی تنظیم کے گولڈن جبلی پروگرام کے انعقاد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مدیر اعلی ایس ایم اشرف فرید مدیر طارق فرید اور پروگرام کے کنوینر نوجوان صحافی ڈاکٹر منصور خوشتر کو مبارک بادیاں دیں وہیں اس پروگرام کے پہلے اجلاس کو سیمینار کی شکل میں مشرف عالم ذوقی کے نام کرنے پر بھی خوشی کا اظہار کیا کہا مشرف عالم ذوقی ادبی دنیا کی وہ شخصیت ہے جس نے اپنی زندگی کو ادب کے نام وقف کر دیا تھا مشرف عالم ذوقی کی مناسبت سے پیش کئے گئے تمام مقالے اور خطبات کی بھی انہوں نے پوری فراخ دلی سے پذیرائی کی۔مستفیض احد عارفی (مظفرپور)، ڈاکٹر عبدالحی،عارف اقبال (پٹنہ)ڈاکٹر فیضان حیدر،ڈاکٹر ریحان احمد قادری (بینی پور کالج)، انور آفاقی، رفیع نشتر، وسیم اختر، جاوید اختر،ڈاکٹر سید ظفر آفتاب حسین،سید محمود احمد کریمی،بی پی ایس سی کے رکن امتیاز احمد کریمی، ڈاکٹر ریحان غنی، اشرف النبی قیصر،اردو ایکشن کمیٹی کی ریاستی جنرل سکریٹری، انوارالہدی، انوارالحسن وسطوی، عارف حسن وسطوی، منظر الحق منظر صدیقی، نسیم رفعت مکی، ڈاکٹر عصمت جہاں، ممتاز عالم انصاری،منور عالم راہی شامل ہوں تھے۔

Recommended