Urdu News

نئے سال کی مبارکباد ۔ اتنی تنگ نظری کیوں ؟

نئے سال کی مبارکباد

تحریر: مسعودجاوید
میں: نیا سال مبارک ہو
مخاطب: آپ کو شرم نہیں آتی آپ عیسائیوں کے نیا سال پر مبارکباد دے رہے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا نیا سال نہیں ہے۔ یہود و نصارٰی کا نیا سال ہے۔
میں: ویسے آج کتنی تاریخ ہے ؟
مخاطب: ٣١ دسمبر!
میں: عیسائی تقویم ( کیلنڈر) کے اعتبار سے آپ نے بتایا ۔ یہ بتائیں آج مسلمانوں کی تقویم کے اعتبار سے تاریخ کیا ہے ؟
مخاطب : معلوم نہیں ۔
میں : اگر آپ کو یہ نہیں معلوم کہ آج ہجری تاریخ ٧ ، مہینہ جمادی الآخر اور سال ١٤٤٤ ہے اور آپ روز مرہ کی زندگی میں دنیا بھر میں رائج اور مقبول عام انگریزی تقویم استعمال کرتے ہیں تو اسی انگریزی تقویم کے اعتبار سے آج سال کا آخری دن اور کل نئے سال کا پہلا دن ہے ۔ اس نئے دن کی شروعات پر نیا سال مبارک ہو کہنے سے آپ کا ایمان کیوں متزلزل ہو رہا ہے !
کیا آپ کو ہجری تاریخ کی ابتدا اور وجہ تسمیہ معلوم ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسلامی تقویم یا ہجری تاریخ کو قمری کیلنڈر اور انگریزی یا گریگورین کیلنڈر کو شمسی تاریخ بھی کہتے ہیں۔
جس طرح ہجری کیلنڈر کی ابتداء مولد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم سے نہیں ہے بلکہ مکہ سے مدینہ ہجرت کے عظیم عمل سے ہے اسی طرح گریگورین کیلنڈر عیسی علیہ السلام کی تاریخ پیدائش سے شروع نہیں ہوئی ہے ۔
دوسری بات یہ کہ اگر مولد عیسیٰ علیہ السلام سے بھی شروع ہوتی تو ہمیں اس کیلنڈر سے تحفظ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے کہ مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام انبیاء کرام پر ایمان لائیں اور بغیر بھید بھاؤ ہر ایک کا احترام کریں ؛ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ ان پر نازل کیا گیا اس پر ایمان لائے اور سبھی مومنوں نے بھی ایمان لایا۔
ان رسولوں میں سے کسی کے ساتھ ہم فرق بھید بھاؤ نہیں کرتے
ہر ایک نے ایمان لایا اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ ان رسولوں میں سے کسی کے ساتھ ہم فرق بھید بھاؤ نہیں کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان تمام انبیاء کرام جن کے نام سے ہم واقف ہیں اور جن کے نام سے ہم واقف نہیں ہیں جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔
اور ان تمام انبیاء کرام ، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک، سب اسلام کے پیغمبر اور رسول تھے سب نے ایک ہی دین ” اسلام” کی تبلیغ کی ۔ دین ہر پیغمبر کا اسلام تھا ہاں شریعتیں ان کے دور کے تقاضوں کے اعتبار سے تھیں ‌۔ اس لئے محض اس لئے کہ وہ دوسرے نبی کے ماننے والے ہیں ہم نفرت نہیں کر سکتے ہیں ۔ ہاں ان کی امتیوں نے جو دین میں تحریف کی ہے ہم اس کی نکیر کرتے ہیں ۔
کیلنڈر اور تقویم کو ہم تمدن اور دن مہینے اور سال کی تعیین اور حساب لگانے کے لئے اختیار کرتے ہیں ۔ اسے اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیۓ نا کہ مذہبی رنگ دے کر عیسائیت کا حصہ مان کر۔
آج کی رات بہت سارے لوگ اپنے آپ سے عہد و پیمان کرتے ہیں کہ آج رات ١٢ بجے کے بعد سے میں سگریٹ نوشی نہیں کروں گا
I hereby resolve to quit the smoking w.e.f 1/1/2023
یا اسی قبیل کا کوئی اور عہد و پیمان ۔ تو اس میں کیا قباحت ہے۔ کیا محض اس لئے کہ انگریز یا عیسائی ایسا کرتے ہیں اس لئے ہم نہ صرف یہ کہ ایسا نہیں کریں گے بلکہ اسے معیوب بھی سمجھیں گے اور ایسا کرنے والوں کی مذمت بھی کریں گے ! اللہ کے احکامات اوامر و نواہی میں مجرمانہ غفلت ، حق تلفی ، غصب جھوٹ فریب مکاری دھوکہ دہی اشاعت اسلام میں کس قدر مانع ہیں اس پر گفتگو کی بجائے ہیپی نیو ایئر پر آپ کا دین خطرے میں آ جاتا ہے ! صد حیف ۔
انگریزی تقویم برطانیہ ، امریکہ اور ان کے بعد یورپ نے اختیار کیا اور چونکہ برطانیہ اور فرانس کی استعماریت کی بساط دنیا کے بیشتر حصوں پر محیط تھی اس لیے دنیا کے تقریباً ہر حصے میں یہی انگریزی تقویم رائج ہوئی اس لیے کہ الناس على دين ملوكهم يعنی جیسا راجہ ویسا ہی پرجا۔
جس تنگ نظری کا اظہار بعض لوگ نئے سال کی مناسبت سے مبارکباد پر کر رہے ہیں اگر ان کا بس چلے تو وہ سنڈے اتوار کی چھٹی بھی تبدیل کرا کے جمعہ کو کرا دیں!
تاہم مذکورہ بالا تلخ باتوں کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ وسیع قلبی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی دینی شناخت اور تہذیبی ورثہ کو پس پشت ڈال دیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم انگریزی ( عیسوی) تاریخ کے ساتھ ہجری تاریخ بھی لکھیں ۔ ماضی میں ایسا ہی ہوتا تھا۔ لوگ عموماً دونوں تاریخ لکھتے تھے مثلاً ٧ رمضان ١٣٩٨ ھ مطابق ١٢ اگست ١٩٧٨ ء

Recommended